بچوں کی شادی سے متعلق نیا قانون اور اس پر بحث
پاکستان میں بچوں کی شادی کے نئے قانون (چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025) پر ماہرین کی رائے یہ قانون بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کی صحت، تعلیم اور تحفظ کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے۔ تاہم، مفتی منیب الرحمن جیسے مذہبی علما نے شرعی اعتراضات اٹھائے ہیں جن کے مطابق شریعت میں 15 سال کی عمر میں بلوغت تسلیم کی جاتی ہے اور 18 سال کی پابندی اس سے متصادم ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ نکاح خواں پر پابندی غیر مؤثر ہے کیونکہ شرعاً دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح جائز ہے، نیز سخت سزاؤں سے نکاح مشکل اور سماجی مسائل بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ قانون کی کامیابی کے لیے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مکالمہ، جاگیردارانہ سوچ کی تبدیلی کے لیے عوامی آگاہی مہمات، اور غربت و تعلیم جیسے بنیادی مسائل حل کرنا ناگزیر ہے۔
تعارف
بچوں کی شادی ایک عالمی سماجی مسئلہ ہے جو ترقی پذیر ممالک، بشمول پاکستان، میں ایک سنگین چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ اس عمل سے نہ صرف بچوں کی تعلیم اور صحت متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ صنفی مساوات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ حال ہی میں، پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک اہم بل، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل، 2025، منظور کیا، جو 18 سال سے کم عمر کی شادیوں کو قابل تعزیر جرم قرار دیتا ہے۔ یہ بل صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد 30 مئی 2025 کو قانون بن گیا۔ اگرچہ اسے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے، لیکن اس پر مذہبی حلقوں سے تنقید بھی سامنے آئی ہے، جن میں سے ایک اہم آواز مفتی منیب الرحمن کی ہے۔ یہ مضمون اس بل کی تفصیلات، اس کے قانون بننے کے عمل، مذہبی نقطہ نظر، اور دیگر خدشات کو بیان کرتا ہے۔
بل کیا ہے؟
بل ایک ایسی قانونی تجویز ہے جو نئے قانون کو بنانے یا موجودہ قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں قانون سازی کا عمل اس طرح ہے
پیشکش: ایک رکن پارلیمنٹ (ایم این اے یا سینیٹر) بل پیش کرتا ہے۔
بحث اور منظوری: بل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث ہوتی ہے، اور دونوں ایوانوں کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
صدارتی دستخط: منظور شدہ بل صدر کو بھیجا جاتا ہے، جو اس پر دستخط کر کے اسے قانون بناتے ہیں۔
یہ عمل معاشرتی مسائل، جیسے کہ بچوں کی شادی، کو حل کرنے کے لیے اہم ہے۔
اسلام آباد چائلڈ میرج بل کی تفصیلات
اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل، 2025 کو پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شرمیلا فاروقی نے 16 مئی 2025 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا، اور اسے 19 مئی 2025 کو سینیٹ میں سینیٹر شیری رحمان نے آگے بڑھایا۔ یہ بل 1929 کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی جگہ لیتا ہے، جو لڑکوں کے لیے شادی کی عمر 18 سال اور لڑکیوں کے لیے 16 سال مقرر کرتا تھا۔ اس کے اہم نکات درج ذیل ہیں
یہ بل اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، خاص طور پر ہدف 5 سے ہم آہنگ ہے، جو 2030 تک بچوں کی شادیوں کے خاتمے کا عہد کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی خواتین نے اس بل کی منظوری کو بچوں کے حقوق اور صنفی مساوات کے لیے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا ہے۔
مذہبی نقطہ نظر
اس بل پر کچھ مذہبی حلقوں سے شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ مفتی منیب الرحمن، ایک معروف عالم دین اور سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، نے اس بل پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا مکمل بیان درج ذیل ہے
بچوں کی شادی
پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اور ایم این ایز نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے ایک پل پاس کرایا، جو صدر آصف علی زرداری کے دستخط سے دارالحکومت اسلام آباد کے لیے نافذ العمل قانون بن گیا ہے۔ اس بل کا عنوان ہے: بچوں کی شادی، اس میں 18 سال سے کم عمر کی شادی کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 15 سال 16 سال اور 17 سال کے لڑکے لڑکیاں بچے (Children) کب سے قرار پائے ہیں، جبکہ شریعت کی رو سے بلوغت کی علامات ظاہر نہ ہونے پر پندرہ سال کے لڑکے اور لڑکی کو بالغ تصور کیا جائے گا اور شرعا وقانوناً بالغ اپنے معاملات میں خود مختار ہوتا ہے۔ نیز صدر ایوب کے زمانے میں پہلی بار 1961 میں عائلی قوانین نافذ کیے گئے تھے اور اس میں لڑکی کے لیے شادی کی کم از کم عمر 16 سال تجویز کی گئی تھی تو اگر 16 سال کا لڑکا یا لڑکی بچے ہیں تو پھر کیا ایوب خان کے نافذ کردہ فیملی لاز ایکٹ 1961 (VIII) کا عنوان تو بچوں کی شادی ہونا چاہیے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل نے خلاف شرع قرار دیا ہے، اس پر صدر کا دستخط کر کے ایکٹ بنانا آئین کی خلاف ورزی ہے یا نہیں اور آئین جب اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا تو پارلیمنٹ کے اراکین کا قرآن وسنت کے خلاف دیده و دانسته قانون بنانا آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے اور کیا ارکان پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ آئین کی پابندی سے ماورا ہیں۔
مفتی منیب الرحمن
مزید برآں، انہوں نے کہا
!پارلیمنٹ کے دانشور ارکان
پارلیمنٹ کے ارکان عصر حاضر کی دانش کے امام ہیں، ان کے فرامین اور کارناموں سے دانش چھلک رہی ہوتی ہے۔ سینیٹ نے محترمہ شیری رحمان کی طرف سے پیش کردہ ایک پرائیویٹ بل پاس کیا ہے، اس میں اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی کا نکاح پڑھانے والے نکاح خواں کے لیے ایک سال تک قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا مقرر کی ہے۔ انھیں شاید یہ علم نہیں کہ نکاح کے شرعی اور قانونی طور پر صحیح انعقاد کے لیے نکاح خواں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں لڑکا اور لڑکی براہ راست ایجاب و قبول کرلیں، تب بھی نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ نیز لڑکے اور لڑکی میں اگر بلوغت کی علامات ظاہر نہ ہوں تو شرعی طور پر پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر انھیں بالغ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا سخت قانون تو امریکہ میں بھی نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ زنا آسان ہو جائے اور نکاح مشکل ہو جائے۔ ہم 6 جولائی 2019 میں دلچسپ معلومات کے عنوان سے امریکہ کے قوانین کے تناظر میں ایک کالم لکھ چکے ہیں، قارئین کی ضیافت طبع کے لیے اسے ہم اپنے پیج پر پھر اپ لوڈ کر رہے ہیں، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ارکان پارلیمان کی عالمی معلومات کی سطح کیا ہے۔
نوٹ: کم عمر کی شادیوں میں ایسے ہی جاگیر دار ملوث ہوتے ہیں جو ہماری پارلیمنٹ کی زینت بنتے ہیں، بہت سے اصلاحی کام قوانین کی طاقت کے بجائے تعلیم اور آگہی سے انجام دیے جاسکتے ہیں، اور نہ ہمارے ہاں قوانین کی پاسداری کتنی ہے، سب جانتے ہیں۔
مفتی منیب الرحمن
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس بل کو خلاف شرع قرار دیا، خاص طور پر اس شق کو کہ کم عمر شادی کو عصمت دری تصور کیا جائے گا۔ جماعت علمائے اسلام (فضل) کے سینیٹرز نے اسے “غیر اسلامی” قرار دیتے ہوئے اسے کونسل کو دوبارہ بھیجنے کا مطالبہ کیا، لیکن اکثریتی اراکین نے کہا کہ اسے کونسل نے پہلے ہی منظور کیا تھا۔
شریعت کے مطابق، نکاح کے لیے ضروری شرائط میں دو گواہوں کی موجودگی، دونوں فریقین کی رضامندی، اور مہر کا تعین شامل ہیں۔ اسلام کے بارے میں کے مطابق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بغیر ولی اور دو قابل اعتماد گواہوں کے نکاح جائز نہیں۔” (ترمذی) تاہم، نکاح خواں کا ہونا ضروری نہیں؛ لڑکا اور لڑکی خود ایجاب و قبول کر سکتے ہیں اگر دیگر شرائط پوری ہوں۔
تنقید اور خدشات
مفتی منیب الرحمن نے پارلیمنٹ کے ارکان کو طنزیہ طور پر “عصر حاضر کی دانش کے امام” قرار دیا، یہ کہتے ہوئے کہ ان کے فیصلوں میں عالمی معلومات اور شرعی فہم کی کمی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نکاح خواں پر پابندی سے کم عمر شادیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ شریعت میں نکاح خواں کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سخت قوانین سے زنا آسان اور نکاح مشکل ہو جائے گا، جو معاشرتی مسائل کو بڑھا سکتا ہے۔
انہوں نے امریکی قوانین کا حوالہ دیا، جہاں بچوں کی شادی ابھی بھی کئی ریاستوں میں بعض شرائط کے تحت جائز ہے۔ 2025 تک، صرف 13 امریکی ریاستیں نے 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر مکمل پابندی لگائی ہے۔ دیگر ریاستوں میں، والدین یا عدالتی اجازت سے کم عمر شادیاں ہو سکتی ہیں، بعض اوقات بغیر کم از کم عمر کی حد کے۔ تاہم، امریکہ میں بچوں کی شادیوں کے خلاف تحریک زور پکڑ رہی ہے، اور کئی ریاستیں اسے روکنے کے لیے قوانین بنا رہی ہیں۔
مزید برآں، مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ پاکستان میں کم عمر شادیاں اکثر جاگیرداروں اور طاقتور افراد کی طرف سے کی جاتی ہیں، جو خود پارلیمنٹ کے ارکان ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سخت قوانین سے زیادہ تعلیم اور آگہی کے ذریعے اصلاحات لائی جائیں، کیونکہ پاکستان میں قوانین کی پاسداری کا فقدان ہے۔
اختتام
اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل، 2025 بچوں کے حقوق، خاص طور پر لڑکیوں کی صحت، تعلیم، اور مستقبل کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ دی گارڈین کے مطابق، یہ بل پاکستان کی خواتین کے حقوق کے تحفظ کی طرف ایک مثبت اشارہ ہے۔ تاہم، مفتی منیب الرحمن اور اسلامی نظریاتی کونسل کی تنقید اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس موضوع پر معاشرے میں گہری تقسیم موجود ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس معاملے پر کھلے دل سے بحث کی جائے اور ایک ایسا حل تلاش کیا جائے جو بچوں کے حقوق اور مذہبی اقدار دونوں کا احترام کرے۔ اقوام متحدہ کی خواتین کے مطابق اس بل کے نفاذ کے لیے موثر میکانزم اور عوامی آگاہی مہمات کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اس کے اثرات کو پورے ملک میں پھیلایا جا سکے۔
- UN Women – Islamabad Capital Territory Child Marriage Restraint Bill 2025
- Dawn – National Assembly passes bill to criminalise child marriages
- Arab News – Pakistan Council declares child marriage bill un-Islamic
- The Guardian – Pakistan sends important signal of hope in child marriage ban
- Wikipedia – Child marriage in the United States
- About Islam – Conditions of Marriage in Islam
- Christian Daily – Bill to curb child marriages passes parliament in Pakistan
1 thought on “پاکستان میں بچوں کی شادی پر پابندی کا قانون غلط کیوں ہے؟”
Its Good