تعارف
ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کئی دہائیوں سے جاری ہے، جو وقتاً فوقتاً فوجی تصادم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ جون 2025 میں، ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں بیلسٹک میزائل اور 100 سے زائد ڈرونز داغے، جو اسرائیل کے ایرانی جوہری تنصیبات اور فوجی اہداف پر حملوں کے جواب میں تھے (دی واشنگٹن پوسٹ)۔ ان حملوں نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو عروج پر پہنچا دیا۔ اس مضمون میں، ہم ان میزائلوں کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والے دفاعی نظاموں کی تفصیلات اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لیں گے۔
میزائل حملوں کا پس منظر
13 جون 2025 کو، ایران نے “آپریشن سیویر پنشمنٹ” کے نام سے اسرائیل پر حملہ کیا، جو اسرائیل کے “آپریشن رائزنگ لائن” کے جواب میں تھا، جس میں ایرانی جوہری تنصیبات، فوجی اڈوں، اور کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا (دی نیویارک ٹائمز)۔ ایران نے اس حملے میں بیلسٹک میزائل اور ڈرونز کا استعمال کیا، جن کا مقصد اسرائیلی فوجی اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانا تھا۔
میزائل روکنے کے مراحل
ایران کے میزائلوں کو روکنے کے لیے کئی ممالک کے دفاعی نظاموں نے مل کر کام کیا۔ ذیل میں ان مراحل کی تفصیل دی گئی ہے
1. خلیج فارس میں امریکی جنگی جہاز
سب سے پہلے، خلیج فارس میں موجود امریکی جنگی جہازوں نے میزائلوں کو روکنے کی کوشش کی۔ یہ جہاز ایجس بیلسٹک میزائل ڈیفنس سسٹم سے لیس ہیں، جو بیلسٹک میزائلوں کو ابتدائی مرحلے میں روک سکتے ہیں۔ امریکی بحریہ کی موجودگی خطے میں دفاعی حکمت عملی کا اہم حصہ ہے (سی بی ایس نیوز)۔
2. عراق میں امریکی فوجی اڈے
اگر میزائل خلیج فارس سے گزر جائیں، تو عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر نصب پیٹریاٹ میزائل سسٹم انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سسٹم مختصر اور درمیانی رینج کے میزائلوں کے خلاف موثر ہے۔ جون 2025 کے حملے کے دوران، امریکی فوجی اڈوں پر موجود فوجیوں کو بنکروں میں منتقل کیا گیا تھا تاکہ ان کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔
3. اردن کی فضائی حدود
جب میزائل اردن کی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہیں، تو اردن کا فضائی دفاعی نظام اور وہاں تعینات امریکی ایف-35 جیٹ طیارے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اردن کی جغرافیائی پوزیشن اسے اس تنازعے میں اہم کردار دیتی ہے، اور اس کا اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون اسے میزائل روکنے میں شامل کرتا ہے (دی واشنگٹن پوسٹ)۔
4. بحیرہ احمر میں امریکی جنگی جہاز
بحیرہ احمر میں موجود امریکی جنگی جہاز بھی میزائلوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ جہاز اضافی دفاعی پرت فراہم کرتے ہیں، جو خطے میں امریکی بحری موجودگی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
5. بحیرہ روم میں برطانوی اور امریکی مداخلت
جب میزائل اسرائیل کے قریب پہنچتے ہیں، تو بحیرہ روم میں قبرص کے برطانوی فضائی اڈوں اور امریکی جنگی جہازوں سے انہیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ مرحلہ میزائلوں کو اسرائیل کی سرحدوں تک پہنچنے سے روکنے کا آخری موقع ہوتا ہے۔
6. اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام
اگر کچھ میزائل ان سب مراحل سے گزر کر اسرائیل تک پہنچ جائیں، تو اسرائیل کے اپنے فضائی دفاعی نظام ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں
- آئرن ڈوم: مختصر رینج کے راکٹس (4-70 کلومیٹر) کے لیے (بی بی سی نیوز)۔
- ڈیوڈز سلنگ: درمیانی رینج کے میزائلوں (300 کلومیٹر تک) کے لیے۔
- ایرو 2 اور ایرو 3: طویل رینج کے بیلسٹک میزائلوں کے لیے، جو فضا کے اندر اور باہر مداخلت کر سکتے ہیں۔
جون 2025 کے حملے میں، ان نظاموں نے زیادہ تر میزائلوں اور ڈرونز کو روک لیا، لیکن کچھ میزائل تل ابیب اور دیگر علاقوں میں گرے، جس سے نقصان اور ہلاکتیں ہوئیں (دی نیویارک ٹائمز)۔
نتائج اور اثرات
جون 2025 کے حملے میں، ایران نے سینکڑوں بیلسٹک میزائل اور 100 سے زائد ڈرونز داغے، لیکن اسرائیلی اور اتحادی دفاعی نظاموں نے ان میں سے زیادہ تر کو روک لیا۔ تاہم، کچھ میزائلوں نے اسرائیل میں نقصان پہنچایا، جس میں کم از کم تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ ایران کے لیے ایک اہم کامیابی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے ملکی طور پر تیار کردہ میزائلوں کا استعمال کر رہا ہے، جبکہ انہیں روکنے کے لیے جدید مغربی ٹیکنالوجی، جیسے کہ پیٹریاٹ، تھڈ، اور ایجس سسٹم، استعمال ہو رہی ہے۔
ایران کے میزائل پروگرام، جیسے کہ شہاب سیریز، نے اسے اسرائیل تک پہنچنے کی صلاحیت دی ہے، جو اس کی فوجی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف، اسرائیل کے دفاعی نظام دنیا کے جدید ترین نظاموں میں سے ہیں، جو اسے متعدد خطرات سے تحفظ فراہم کرتے ہیں (بی بی سی نیوز)۔
جغرافیائی اور سیاسی تناظر
یہ تنازعہ صرف ایران اور اسرائیل تک محدود نہیں ہے۔ متعدد ممالک، بشمول امریکہ، برطانیہ، اور اردن، اس میں شامل ہیں، جو دفاعی اتحادوں اور جغرافیائی پوزیشن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر
- امریکہ: خطے میں اپنی بحری اور فوجی موجودگی کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کرتا ہے۔
- اردن: اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے میزائل روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
- برطانیہ: بحیرہ روم میں اپنے فضائی اڈوں سے دفاعی مدد فراہم کرتا ہے۔
مزید برآں، اسرائیل کو نہ صرف مغربی ممالک بلکہ کچھ مسلم ممالک، جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین، کی بھی حمایت حاصل ہے، جو ابراہم معاہدوں کے تحت اس کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، ایران اکیلا اسرائیل کے مقابلے میں کھڑا ہے، جو اس کے محدود وسائل کے باوجود اس کی استقامت کو ظاہر کرتا ہے۔
دفاعی نظاموں کی کارکردگی کا جائزہ
ذیل میں ایک جدول دیا گیا ہے جو مختلف دفاعی نظاموں اور ان کے کردار کو دکھاتا ہے
کردار | دفاعی نظام | علاقہ |
---|---|---|
ابتدائی مرحلے میں بیلسٹک میزائلوں کو روکنا | ایجس بیلسٹک میزائل ڈیفنس | خلیج فارس |
مختصر اور درمیانی رینج کے میزائلوں کو روکنا | پیٹریاٹ میزائل سسٹم | عراق |
فضائی حدود میں میزائلوں اور ڈرونز کو تباہ کرنا | اردنی فضائی دفاع، ایف-35 جیٹ | اردن |
اضافی دفاعی پرت فراہم کرنا | امریکی جنگی جہاز | بحیرہ احمر |
اسرائیل کی سرحدوں سے پہلے میزائلوں کو روکنا | برطانوی فضائی اڈے، امریکی جہاز | بحیرہ روم |
مختصر، درمیانی، اور طویل رینج کے میزائلوں کو روکنا | آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ، ایرو 2/3 | اسرائیل |
نتیجہ
جون 2025 کا ایران-اسرائیل تنازعہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کا ایک اور مظہر ہے۔ اگرچہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے جدید دفاعی نظاموں نے زیادہ تر ایرانی میزائلوں کو روک لیا، کچھ میزائلوں کا ہدف تک پہنچنا ایران کی فوجی صلاحیت اور عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ تنازعہ نہ صرف فوجی ٹیکنالوجی بلکہ جغرافیائی سیاست اور بین الاقوامی اتحادوں کی پیچیدگیوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ عالمی برادری کو اس تنازعے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔