بے یقینی کا نفسیاتی اثر
تقریباً ایک صدی قبل اس امت پر بے یقینی کی کیفیت کو مسلط کیا گیا۔ ہمارے نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ بھی یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ان سے کہا جائے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے۔ جب آپ بچوں کو طعنہ دیتے ہیں تو وہ واقعی کچھ نہیں کر پاتے۔ تو اسی لیے امت کو بے یقینی میں مبتلا کرنے کے لیے مغرب کی برتری کو ثابت کیا گیا۔
جگہ جگہ دو نمبر دانشور بٹھا دیے گئے، حتیٰ کہ ہماری اصلی دانشگاہوں کے اندر فرنگی روحوں کے بے حس ڈھانچے مشرقیات کو گالی دینے لگے اور مغربیت کے قصیدے پڑھنے لگے۔ ان کی تہذیب اور تمدن کے گن گانے لگے اور اپنی تہذیب کو ڈیگریڈ کرنے لگے۔ اور دنیا کے سامنے یہ بات باب کی کہ یہ ناقابل تسخیر ہیں، ان کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
یہ بے یقینی اس امت کو توڑ کے رکھ دیا۔ اقبال نے آج سے 100 سال قبل کہا تھا:
سن تہذیب حاضر کے گرفتار، غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
تاریخی مثالیں: حضرت موسیٰ کا قبیلہ
اور اس امت کی نشہت کو، اس امت کی نحضت کو روکا گیا کہ نہیں، تم مقابلہ نہیں کر پاؤ گے۔ اور یہ ماضی کے اندر بھی ہوتا رہا۔ قوم موسیٰ نے کہا تھا ہم تو مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ موت سے بدتر زندگی تھی، اور یہ بالکل ہتھیار پھینک چکے تھے۔ پھر حضرت موسیٰ آئے اور ان کو کھڑا کیا، ہمت دلائی۔
دریا نیل کے کنارے آئے تو پھر اڑ کے کھڑے ہو گئے، کیونکہ 12 قبائل تھے۔ تو کہنے لگے کہ ہم ایک ہی راستے سے نہیں گزریں گے۔ دشمن پیچھے چڑھا ہوا ہے، اور یہ قوم اڑ کے کھڑی ہو گئی ہے نیل کے کنارے کہ نہیں، ہم ایک سراخ سے نہیں گزریں گے۔ ہمارے قبائل الگ الگ ہیں، لہٰذا ہمارے لیے الگ الگ راستے بناؤ۔
قومیں جب نقبت میں، رسوائی میں چلی جاتی ہیں تو یہی حال ہوتا ہے۔ وہ کسی نے کہا کہ ہم ایران کا ساتھ نہیں دے سکتے، وہ تو شیعہ ہیں۔ تو میں نے کہا کہ چلو، آپ نیتن یاہو کا دے دو، وہ تو سنی ہے۔ اس حالت کے اندر نیل کے کنارے کھڑے ہیں، اور اب بھی کہہ رہے ہیں کہ نہیں، ہم ایک گلی سے نہیں گزر سکتے۔
12 راستے بن گئے، 12 راستوں سے 12 قبائل گزرے۔ ادھر وہ بالکل دوسرے کنارے کے قریب پہنچ گئے، ادھر ان کا آخری آدمی دریا میں داخل ہو گیا۔ اب حکم ہوا، دریا کے، اب تو چلنا شروع ہو۔ اور یہ پھر پانی میں ڈوب رہے تھے، اور یہ کنارے پر دیکھ کے اپنے قاتل کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
اگرتم ایران کا ساتھ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ اہل تشیع ہیں تو تم نیتن یاہو کا دے دو وہ تو سُنی ہے
موجودہ حالات اور امت کی ہمت
بڑا لطف آتا ہے جب قاتل کو مرتے ہوئے دیکھیں۔ آج کل بڑا مزا آ رہا ہے، آج کل بہت خوشی ہو رہی ہے۔ یہ آج ہی مجھے کسی نے بھیجا کہ اسرائیل کے وزیر ثقافت نے ایک ہسپتال پر کوئی میزائل لگا ہے، اور اس کی کوئی دیوار گر گئی ہے۔ تو اس نے کہا کہ یہ انسانیت تو نہیں ہے۔
میں نے کہا، جب تم نے بچوں کو بھی کھینچ کے نکالا تھا، اور آکسیجن کی نالیاں بھی توڑی تھی، اور بم برسائے تھے، ان کی رگوں کے اندر بھی سرخ خون دوڑتا تھا، وہ بھی انسان تھے۔ تم اتنی جلدی بھول گئے؟ تم نے 80 ہزار لوگوں کو پیس کے رکھ دیا، اور آج تمہیں مزا آیا؟
میاں، ابتدا عشق ہے، روتا ہے کیا؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ابھی تو لطف آئے گا، ابھی تو تمہیں پتہ چلے گا کہ درد کیا ہوتا ہے۔
ابھی ایک دو ماہ قبل آئرن ڈوم کی کہانیاں، یہ دانشوروں میں سنا رہے تھے، وہ کہتے تھے، وہاں چڑیا بھی اندر نہیں جا سکتی۔ لیکن پھر دنیا نے میزائل جاتے دیکھے۔ کیسا خوفزدہ کیا ہوا تھا۔ نہیں، ناقابل تسخیر ہے، اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ وہ آسمان سے اترے ہیں۔ کیوں ان کا مقابلہ نہیں ہو سکتا؟
خدا چاہے تو معمولی سے شاہباز کو لڑا دے۔ وہ تو ابابیلوں سے ہاتھی مروا دیتا ہے۔ تو اللہ جل شانہ کمزور نہیں ہوا، اس کی خفیہ تدبیریں ابھی ختم نہیں ہوئی، اور کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ تم ایک چال چل رہے ہو، اور وہ تمہیں چال میں پھنسا رہا ہے۔
میرے اللہ نے اس امت کے تنے نازک کے اندر زندگی کی لہریں پیدا کر دی ہیں، اور ایک تموج پیدا ہو گیا ہے۔
اگرچہ آج بھی وہ فلسفہ، آج وہ دانشوری کا جعلی گلگلا موجود ہے، آج بھی مایوسی کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ چار دن کی کہانی، اس کے بعد آپ کو ایران کھنڈر بنا دکھائی دے گا۔ بن جائے کھنڈر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو پیغمبروں نے جنگ لڑی ہیں، اس کے نقصان پیغمبروں نے اٹھائے، اس سے کیا ہوتا ہے؟
تم کھنڈر کی بات کرتے ہو، تو کربلا کھنڈر نہیں بنا تھا؟ لیکن آج جھنڈے حسین کے جھول رہے ہیں، یزید کے تو نہیں جھول رہے۔ تو یہ کھنڈر اسرائیل بننے والا ہے، اسلام کا جھنڈا بلند ہوگا۔ الاسلام یعلو ولا یولا، الاسلام سر بلند ہے، سر بلند رہے گا، اور شرق سے لے کر غرب تک جھنڈا میرے حضور کے نام کا لہراتا رہے گا۔
دنیا میں قیادت کا تبادلہ
مغرب سے قیادت مشرق کی جانب منتقل ہونے والی ہے۔ آپ چین کے صدر کا بیان پڑھیے، بصیرت اور حکمت سے بھرا ہوا وہ بیان تھا، جس نے سینہ ٹھنڈا کر دیا۔ دنیا کی نظروں میں سب کچھ ہے، بس ایک آواز اٹھنی ہے، اور دنیا کی نئی صف بندی ہوگی، اور مغرب سے مشرق کی جانب قیادت منتقل ہو رہی ہے، انشاءاللہ۔
اور وہ وقت دور بھی نہیں ہے کہ انشاءاللہ اسلام کا جھنڈا پوری دنیا کے اوپر لہرائے گا۔
پاکستان کا موقف اور ایران کے ساتھ کھڑا ہونا
اور مسلمان سر بلند ہوں گے، اور یہ بات ہم عرض کرنا چاہتے ہیں، پوری دنیا بھی اسرائیل کو مان لے، پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا، انشاءاللہ۔ ہمارے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ یہ امت کے قلب میں گھسایا گیا خنجر ہے، اور یہ مغرب کی ناجائز اولاد ہے، ناجائز ریاست ہے۔ کسی صورت کے اندر بھی ہم اس کو قبول نہیں کریں گے۔
آج یہ بات بھی سننے کو مل رہی ہے کہ شاید پاکستان ایران کے خلاف اپنے اڈے فراہم کر رہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا، یہ سوائے افواہ کے اور کچھ نہیں ہے۔
اللہ نے ہمیں یہ گزشتہ دن جو عزت دی، جو وقار دیا، انڈیا کے خلاف ہم نے ناکوں چنے چبوائے ان کو، تو کیا ہم اس عزت کو خاک میں اپنے ہاتھوں سے ملا دیں گے؟ ہم اتنے گرے ہوئے ہیں کہ اپنے ہمسائے ملک کے مقابلے کے اندر ہم اڈے فراہم کر دیں گے؟ کیا ہماری غیرت اتنی بھی نہیں ہے؟ کبھی نہیں ہوگا، انشاءاللہ۔ ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
مستقبل کی امیدیں: بیت المقدس کی آزادی
کیسے کھڑے ہوں گے، یہ ہمارے عصری ماہرین کا تجربہ ہے کہ انہوں نے کیسے کھڑا ہونا ہے، اور کس طرح ساتھ دینا ہے۔ ہم وہاں وہاں سے زخم لگائیں گے، تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا یہ تیر آیا کدر سے ہے۔ انشاءاللہ، تم چیخو گے، لیکن تمہیں پتہ نہیں چل سکے گا کہ یہ پہنچا کیسے ہے، کس راستے آیا ہے۔
انشاءاللہ، اب تمہارے رونے چیلانے کا دور شروع ہوا، اور انشاءاللہ بیت المقدس ان قریب ایسے مرحلے میں پہنچے گا کہ ہم یہاں کہہ رہے ہوں گے کہ ہم بیت المقدس کے راستے مدینے جا رہے ہیں۔ انشاءاللہ، بیت المقدس آزاد ہوگا، اور ہم ایسے حج عمرے کریں گے کہ اللہ کے ایک گھر سے احرام باندھیں گے، اور دوسرے گھر میں جا کے عمرہ کرکے اور حج کرکے کھولیں گے۔
انشاءاللہ، عزوجل وہ وقت جلد یا بدیر آنے والا ہے، کیونکہ الحق یا ولا یو، حق ہی سر بلند ہوگا۔ جلد یا بدیر، اسلام نے ہی غالب آنا ہے، اور انشاءاللہ وہ آ کے رہے گا۔
جدول: ایران اور اسرائیل جنگ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
تفصیل | پہلو |
---|---|
گزشتہ صدی میں مغرب کی برتری کو ثابت کرکے امت کو کمزور کیا گیا۔ | بے یقینی |
حضرت موسیٰ نے قوم کو ہمت دی اور دشمن کو شکست دی۔ | تاریخی مثال |
اسرائیل کے غیر انسانی اقدامات کی مذمت اور امت کی ہمت کی بحالی۔ | موجودہ حالات |
مغرب سے مشرق کی طرف قیادت منتقل ہو رہی ہے۔ | قیادت کی منتقلی |
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنا اور ایران کے ساتھ اتحاد۔ | پاکستان کا موقف |
بیت المقدس کی آزادی اور امت کی عزت کی بحالی۔ | مستقبل کی امیدیں |