بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی: تاریخی اور مذہبی اہمیت
تعارف
بیت المقدس، یا یروشلم، ایک ایسا شہر ہے جو تینوں ابراہیمی مذاہب—اسلام، یہودیت، اور عیسائیت—کے لیے مقدس ہے۔ یہ شہر انبیاء کرام کے مزارات اور مقدس مقامات سے بھرا ہوا ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ رہا ہے اور معراج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا مقام ہے۔ اس شہر میں ہیکل سلیمانی، یا سلیمان کا مندر، بھی واقع تھا، جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ یہ مضمون بیت المقدس کی تاریخی اور مذہبی اہمیت، ہیکل سلیمانی کی تاریخ، اور قیامت کی نشانیوں سے اس کے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے۔
بیت المقدس کی اہمیت
بیت المقدس، جو فلسطین کے شہر القدس میں واقع ہے، اسلامی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ مسلمانوں کا پہلا قبلہ تھا، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ہجرت سے قبل اور اس کے بعد 16-17 ماہ تک رخ کر کے نمازیں ادا کیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق، مسجد اقصیٰ کعبہ کے بعد دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جس کی بنیاد کعبہ کے 40 سال بعد رکھی گئی۔(صحیح بخاری)
مسجد اقصیٰ معراج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کا مقام رہی، جہاں انہوں نے تمام انبیاء کی امامت کی۔ یہ شہر انبیاء کرام کے مزارات اور مقدس مقامات سے بھرا ہوا ہے، جو اسے یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے لیے یکساں مقدس بناتا ہے۔
ہیکل سلیمانی کیا ہے؟
ہیکل سلیمانی، یا سلیمان کا مندر، ایک عبادت گاہ تھی جو حضرت داؤد علیہ السلام نے شروع کی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے مکمل کی۔ یہ مندر تبوت سکینہ (Ark of the Covenant) کا گھر تھا، جو ایک مقدس صندوق تھا جس میں تورات کی تختیاں اور دیگر مقدس اشیاء رکھی گئی تھیں (Solomon’s Temple)۔ اسلامی روایات کے مطابق، حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تعمیر کے دوران جنوں کو ماتحت کیا، جو دن رات کام کرتے تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان کی وفات ہوئی، وہ ایک چھڑی پر ٹیک لگائے کھڑے تھے، اور جنوں کو معلوم نہ ہوا کہ وہ وفات پا چکے ہیں۔ جب دیمک نے چھڑی کو کھایا اور وہ گرے، تب جنوں کو معلوم ہوا کہ ان کا نگران اب موجود نہیں ہے۔
تاریخی واقعات
ہیکل سلیمانی کی تاریخ میں کئی بار تباہی اور تعمیر نو ہوئی۔ اسے پہلی بار 586 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے تباہ کیا۔ پھر دوبارہ تعمیر کیا گیا (دوسرا مندر)، اور 70 عیسوی میں رومی سلطنت نے اسے دوبارہ تباہ کر دیا (ہیکل سلیمانی)۔
اسلامی تاریخ میں، خلیفہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں 637 عیسوی میں یروشلم فتح ہوا۔ اسلامی فوج نے شہر کا محاصرہ کیا، اور عیسائی راہب سوفرونیس نے خلیفہ عمر کا نام اپنی کتابوں میں دیکھ کر شہر کے دروازے کھول دیے (یروشلم کا محاصرہ 636–637)۔ خلیفہ عمر نے سادہ لباس میں اونٹ پر سوار ہو کر شہر میں داخل ہو کر ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت عیسائیوں اور یہودیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا۔
بعد میں، صلیبی جنگوں کے دوران، یروشلم عیسائیوں کے ہاتھ میں چلا گیا، لیکن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے معرکہ حطین کے بعد اسے دوبارہ فتح کیا اور مسلمانوں کے زیر انتظام لایا (یروشلم کا محاصرہ 1187)۔
قیامت کی نشانیوں سے تعلق
حدیث کے مطابق، بیت المقدس کی فتح قیامت کی چھ بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “قیامت کے قریب ہونے کی چھ نشانیاں گنو: میری موت، یروشلم کی فتح، ایک وباء جو تمہیں بڑی تعداد میں مار ڈالے گی، دولت کی کثرت، پھر ایک فتنہ جو کسی عرب گھر کو نہیں چھوڑے گا، اور پھر بنی الاصفر (رومی) کے ساتھ صلح جو وہ توڑ دیں گے” (صحیح بخاری)۔ یہ فتح، جو خلیفہ عمر کے دور میں ہوئی، اس حدیث کی تکمیل سمجھی جاتی ہے۔
موجودہ تناظر
آج بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ فلسطین-اسرائیل تنازعہ کے مرکز میں ہیں۔ کچھ گروہوں کا خیال ہے کہ ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ کو ہٹانا ضروری ہے، جو ایک حساس اور متنازعہ موضوع ہے۔ اس تنازعہ نے بیت المقدس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے، اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت مسلمانوں کے لیے ایمان کا حصہ ہے۔ تمام فریقین کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے، اس موضوع پر گفتگو احتیاط سے کی جانی چاہیے۔
خلیفہ عمر کی عاجزی سے سبق
خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کی بیت المقدس فتح کے دوران عاجزی ایک عظیم سبق ہے۔ وہ سادہ لباس میں اونٹ پر سوار شہر میں داخل ہوئے، حالانکہ وہ اسلامی سلطنت کے سربراہ تھے۔ جب انہیں شاندار لباس پہننے کی تجویز دی گئی، تو انہوں نے اسے ٹھکرا دیا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکبر کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ کامیابی کے وقت بھی عاجزی اور اللہ کا خوف ضروری ہے۔
اختتام
بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کی تاریخ ہمیں ہمارے مذہبی ورثے کی اہمیت سکھاتی ہے۔ یہ مقامات نہ صرف تاریخی بلکہ روحانی اعتبار سے بھی اہم ہیں۔ قیامت کی نشانیوں میں بیت المقدس کی فتح ایک اہم واقعہ ہے، جو خلیفہ عمر کے دور میں پوری ہوئی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے دعا کریں اور اپنی نسلوں کو ان کی اہمیت سے آگاہ کریں۔
خلاصہ جدول
تفصیل | موضوع |
---|---|
پہلا قبلہ، انبیاء کے مزارات اور مسجد اقصیٰ کا مقام | بیت المقدس |
حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ عبادت گاہ، جنوں کی مدد سے بنائی گئی | ہیکل سلیمانی |
مندر کی تباہی، خلیفہ عمر کی فتح، صلاح الدین ایوبی کی دوبارہ فتح | تاریخی واقعات |
یروشلم کی فتح، قیامت کی چھ نشانیوں میں سے ایک | قیامت کی نشانیاں |
فلسطین-اسرائیل تنازعہ، مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی اہمیت | موجودہ تناظر |
خلیفہ عمر کی عاجزی، اللہ کے سامنے سادگی کی اہمیت | سبق |