واقعہ کربلا کے بعد کے واقعات: اہل بیت کی اسیری، خیموں کو آگ لگانا، امام حسین کا دفن، اور ان کا سر مبارک
تعارف
واقعہ کربلا، جو 10 محرم 61 ہجری (10 اکتوبر 680 عیسوی) کو پیش آیا، اسلامی تاریخ کا ایک عظیم المیہ ہے۔ اس واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، امام حسین بن علی، ان کے خاندان اور ساتھیوں نے یزید بن معاویہ کی اموی فوج کے ہاتھوں شہادت پائی۔ یہ واقعہ نہ صرف شیعہ بلکہ سنی مسلمانوں کے لیے بھی ایک عظیم قربانی اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ اس مضمون میں ہم کربلا کے بعد کے واقعات، اہل بیت کی اسیری، خیموں کو آگ لگانے، امام حسین کے دفن، ان کے سر کے سفر، قافلے کی ساخت، خطابات، شاعری، اور مدینہ واپسی پر تفصیل سے بات کریں گے، جو کہ سنی ذرائع اور عمومی طور پر قبول شدہ تاریخی روایات پر مبنی ہے۔
اہل بیت کی اسیری
امام حسین کی شہادت کے بعد، اہل بیت کو اموی فوج نے قیدی بنا لیا۔ انہیں 11 محرم کو کربلا سے کوفہ لے جایا گیا، جہاں انہیں عبید اللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد، انہیں دمشق بھیجا گیا، جہاں وہ یزید کے دربار میں پیش ہوئے۔ اس قافلے میں امام زین العابدین (علی بن حسین)، حضرت زینب بنت علی، اور دیگر خواتین و بچے شامل تھے۔ تاریخی روایات کے مطابق، انہیں سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا، جیسے کہ گاؤں سے گاؤں تک پریڈ، عوامی رسوائی، اور جسمانی و جذباتی تکالیف۔ سنی ذرائع، جیسے کہ وکی پیڈیا کی “کربلا کی جنگ“، اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اہل بیت کو کوفہ سے دمشق لے جایا گیا اور ان کے ساتھ سخت سلوک کیا گیا۔
خیموں کو آگ لگانا
کربلا کے میدان میں، اموی فوج نے اہل بیت کے خیموں کو آگ لگا دی۔ یہ عمل ان کی تکلیف کو بڑھانے اور ان کی عزت کو مجروح کرنے کی کوشش تھی۔ شمر بن ذی الجوشن جیسے کمانڈرز نے اس عمل میں حصہ لیا، جیسا کہ کچھ تاریخی روایات میں ذکر ہے۔ یہ واقعہ اہل بیت کے لیے ایک اضافی صدمہ تھا، کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے پیاروں کی شہادت کا غم سہہ رہے تھے۔
امام حسین کا دفن
امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کو بنو اسد قبیلے نے، جو کربلا کے قریب رہتے تھے، دفن کیا۔ یہ قبیلہ کربلا کے قریبی گاؤں غاضریہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اگرچہ اس بارے میں کچھ اختلافات موجود ہیں، لیکن عمومی طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ بنو اسد نے یہ فریضہ انجام دیا۔ سنی ذرائع میں اس کی واضح تفصیلات کم ہیں، لیکن وکی پیڈیا کی “روضہ امام حسین” کے مطابق، امام حسین کی قبر کربلا میں واقع ہے، جہاں آج ان کا روضہ موجود ہے۔
امام حسین کے سر کا سفر
امام حسین کا سر نیزے پر چڑھا کر پہلے کوفہ لے جایا گیا، جہاں اسے عبید اللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کے بعد، اسے دمشق یزید کے دربار میں بھیجا گیا۔ کچھ روایات کے مطابق، یہ سر حلب سے ہوتا ہوا دمشق پہنچا، جہاں اسے عوام کے سامنے دکھایا گیا۔ حلب میں ایک مقام پر اس سر کو ایک پتھر پر رکھا گیا تھا، جہاں سے خون کے قطرے گرے، اور وہاں ایک مسجد بنائی گئی۔ سنی ذرائع میں اس بارے میں مختلف آراء ہیں، جیسے کہ اسلام کیو اے معلومات، جو کہتے ہیں کہ سر کا حتمی مقام واضح نہیں، لیکن یہ یا تو شام میں رہا یا عراق واپس لایا گیا۔
قافلے کی ساخت
قافلے میں اہل بیت سے امام زین العابدین، حضرت زینب، اور دیگر خواتین و بچے شامل تھے۔ اموی فوج کی طرف سے عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر کمانڈرز اس قافلے کی نگرانی کر رہے تھے۔ وکی پیڈیا کی “کربلا کی جنگ” کے مطابق، یہ قافلہ کوفہ سے دمشق تک گیا، اور اس میں اہل بیت کے علاوہ شہداء کے سروں کو بھی لے جایا گیا۔
افراد | فریق |
---|---|
امام زین العابدین، امام الباقر، عمر بن الحسین، محمد بن الحسین، زید بن الحسن، محمد بن عمرو بن الحسن، جعفر بن ابی طالب کے دو بیٹے، عبد اللہ بن عباس بن علی، قاسم بن عبد اللہ بن جعفر، قاسم بن محمد بن جعفر، محمد الاصغر بن عقیل، عقبہ بن سمعان (رباب کا خادم)، عبد الرحمن بن عبد ربہ الانصاری کا خادم، مسلم بن رباح (امام علی کا خادم)، علی بن عثمان المغربی | اہل بیت (مرد) |
امام علی کی بیٹیاں: زینب، فاطمہ، ام کلثوم (یا نفیسہ یا زینب الصغری)، ام الحسن، خدیجہ (عبد الرحمن بن عقیل کی بیوی)، ام ہانی (عبد اللہ الاکبر بن عقیل کی بیوی)، امام حسین کی بیٹیاں: سکینہ، فاطمہ، رقیہ، زینب، رباب (امام حسین کی بیوی)، ام محمد (امام حسن کی بیٹی فاطمہ، امام زین العابدین کی بیوی اور امام الباقر کی والدہ)، فکیہہ (قریب بن عبد اللہ بن عریقیت کی والدہ) | اہل بیت (خواتین) |
عمر بن سعد، شمر بن ذی الجوشن، اور دیگر سپاہی جو قافلے کی نگرانی کر رہے تھے | اموی فوج |
کچھ ذرائع کے مطابق، قیدیوں میں 61 خواتین شامل تھیں۔ قافلے کی نگرانی اموی فوج کے سپاہیوں نے کی، جن کی قیادت ممکنہ طور پر شمر بن ذی الجوشن یا دیگر کمانڈرز نے کی۔
واقعہ کی تاریخ
یہ واقعہ 10 محرم 61 ہجری (10 اکتوبر 680 عیسوی) کو پیش آیا، جو عاشورہ کے دن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ تاریخ سنی اور شیعہ دونوں روایات میں متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔
خطابات
دمشق میں یزید کے دربار میں، امام زین العابدین اور حضرت زینب نے طاقتور خطابات کیے۔ ان خطابات میں انہوں نے یزید کے ظلم کی مذمت کی اور امام حسین کی قربانی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ حضرت زینب کا خطاب، جو سنی عالم ابو الفضل احمد بن ابی طاہر کی کتاب “بلاغت النساء” میں درج ہے، یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے خاندان کے ساتھ ظلم کیا۔ اسی طرح، امام زین العابدین نے اپنے خطاب میں اپنا تعارف کرایا اور اپنے والد کی قربانی کی حقیقت کو واضح کیا، جیسا کہ وکی پیڈیا کی “دمشق میں علی ابن حسین کا خطبہ” میں ذکر ہے۔ یہ خطابات عوام میں بیداری پیدا کرنے میں اہم تھے۔
امام زین العابدین کا خطاب
امام زین العابدین نے دمشق کی جامع مسجد میں خطاب کیا۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حمد کی، امام حسین کی عظمت کو اجاگر کیا، اور یزید کے مظالم کو بے نقاب کیا۔ ایک اہم لمحے میں، جب مؤذن نے “اشھد ان محمد رسول اللہ ﷺ ” کہا، امام نے مؤذن کو روکا اور یزید سے پوچھا: “اے یزید، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے نانا تھے یا میرے؟ اگر تم کہو کہ وہ تمہارے نانا تھے تو یہ جھوٹ ہوگا، اور اگر میرے نانا تھے تو تم نے ان کے بیٹے کو کیوں قتل کیا اور ان کے خاندان کو قید کیا؟” اس خطاب نے شامیوں کو یزید کے خلاف کردیا، اور لوگوں نے امام کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
حضرت زینب کا خطاب
حضرت زینب نے یزید کے دربار میں ایک پرجوش خطاب کیا، جو بلاغت النساء میں درج ہے۔ انہوں نے یزید کے گناہوں اور اللہ کے نشانات کی توہین کی مذمت کی۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا شہادت اور اسیری نے ان کے مقام کو کم کیا۔ انہوں نے یزید کو یاد دلایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوران اس کے مشرکین آباؤ اجداد کو آزاد کیا تھا۔ انہوں نے یزید پر تنقید کی کہ وہ رسول ﷺ کی بیٹیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے جبکہ اپنی خواتین کو پردے میں رکھتا ہے۔ انہوں نے یزید کی سزا اور اس کے آباؤ اجداد سے ملاقات کی پیشگوئی کی، اور دعا کی کہ اللہ ان کا حق دلائے اور ظالموں سے انتقام لے۔ انہوں نے قرآن (سورہ آل عمران، 3:169 اور 3:178) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہداء جنت میں ہیں اور یزید کی رسوائی یقینی ہے۔
شاعری
واقعہ کربلا نے کئی شاعروں کو متاثر کیا، جن میں علامہ اقبال نمایاں ہیں۔ ان کے اشعار کربلا کی عالمگیر اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ چند مثالیں
مدینہ واپسی
دمشق میں چند دن قید کے بعد، اہل بیت کو رہا کیا گیا اور وہ مدینہ واپس آئے۔ واپسی کی صحیح تاریخ سنی ذرائع میں واضح نہیں، لیکن یہ مانا جاتا ہے کہ وہ رجب 60 ہجری سے ایک سال کے اندر، ممکنہ طور پر صفر 61 ہجری یا بعد میں، واپس آئے۔ کچھ روایات کے مطابق، وہ واپسی پر کربلا سے گزرے، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوتی، کیونکہ محدث النوری اور شیخ عباس قمی اسے قبول نہیں کرتے۔ جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے، امام زین العابدین نے بشیر بن ہذلم کو شہر بھیجا تاکہ وہ امام حسین کی شہادت کی خبر دیں۔ بشیر نے مسجد نبوی میں ایک نظم پڑھی:
“اے مدینہ کے لوگو! اب مدینہ میں رہنے کی جگہ نہیں، حسین شہید ہوگئے، خوب روؤ۔ ان کا جسم کربلا میں خون آلود ہے، اور ان کا سر نیزے پر گھوم رہا ہے۔”
اس نظم نے مدینہ کے لوگوں کو غم میں ڈبو دیا۔ اہل بیت کو اپنے پیاروں کے کھو جانے کا غم اور شہر کے سوگ کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے سفر کے دوران جسمانی مشکلات، جیسے کہ ننگے پاؤں اونٹوں پر سواری، رسیوں سے بندھنا، اور عوامی رسوائی، کے ساتھ ساتھ جذباتی صدمات برداشت کیے۔
صداقت خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
مرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
یہ اشعار کربلا کے واقعے کے جذباتی اور روحانی اثرات کو بیان کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے یہ اشعار سنی اور شیعہ دونوں کے لیے قابل قبول ہیں، جیسا کہ کشمیر آبزرور میں ذکر ہے۔
نتیجہ
واقعہ کربلا اور اس کے بعد کے واقعات اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اہل بیت کی اسیری، خیموں کو آگ لگانا، امام حسین کا دفن، اور ان کے سر کا سفر، یہ سب اس عظیم قربانی کی داستان کو مکمل کرتے ہیں۔ امام زین العابدین اور حضرت زینب کے خطابات نے یزید کے ظلم کو بے نقاب کیا، جبکہ علامہ اقبال جیسے شاعروں نے اس واقعے کی عالمگیر اہمیت کو اپنی شاعری میں اجاگر کیا۔ اہل بیت کی مدینہ واپسی ان کی استقامت اور صبر کی علامت ہے۔ یہ واقعہ آج بھی سنی اور شیعہ دونوں کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت اور حق کے لیے قربانی دینا ایک عظیم قدر ہے۔
FAQs: Treatment of Ahl-e-Bayt After Imam Hussain’s Martyrdom: Key Events Following the Battle of Karbala
What happened to the Ahl-e-Bayt after Imam Hussain’s martyrdom in Karbala?
After Imam Hussain’s martyrdom on 10 Muharram 61 AH (10 October 680 CE), the Ahl-e-Bayt, including Imam Zayn al-Abidin, Hazrat Zainab, and other women and children, were taken captive by the Umayyad army. On 11 Muharram, they were marched from Karbala to Kufa and presented before Ubaydullah ibn Ziyad. They were later sent to Damascus to face Yazid’s court, enduring public humiliation, physical hardships, and emotional trauma, as noted in sources like Wikipedia’s “Battle of Karbala.”
Why were the tents of Ahl-e-Bayt set on fire after the Battle of Karbala?
The Umayyad army, led by commanders like Shimr ibn Dhil-Jawshan, set fire to the tents of Ahl-e-Bayt in Karbala to intensify their suffering and dishonor them. This act compounded the grief of losing their loved ones, as described in historical accounts, marking a deliberate attempt to humiliate the Prophet’s family.
Who buried Imam Hussain and his companions after their martyrdom?
The Banu Asad tribe, residing near Karbala in the village of Ghadiriyyah, buried the bodies of Imam Hussain and his companions. While some historical details differ, it is widely accepted that Banu Asad performed this duty. Wikipedia’s “Shrine of Imam Hussain” confirms his grave is in Karbala, where his shrine stands today.
What happened to Imam Hussain’s head after his martyrdom?
Imam Hussain’s severed head was mounted on a spear and taken to Kufa, where it was presented to Ubaydullah ibn Ziyad. It was then sent to Damascus for display in Yazid’s court. Some accounts, like those in Islam Q&A, mention it passing through Aleppo, where it was placed on a stone, leaving blood traces, and a mosque was built there. Its final resting place is debated, possibly remaining in Damascus or returned to Iraq.
What were the significant speeches delivered by Ahl-e-Bayt in Damascus?
In Yazid’s court, Imam Zayn al-Abidin and Hazrat Zainab delivered powerful speeches condemning Yazid’s tyranny. Hazrat Zainab’s speech, recorded in “Balaghat al-Nisa” by Abu al-Fadl Ahmad ibn Abi Tahir, criticized Yazid for oppressing the Prophet’s family. Imam Zayn al-Abidin, in Damascus’ Grand Mosque, challenged Yazid, asking, “O Yazid, was Muhammad your grandfather or mine?” These speeches, referenced in Wikipedia’s “Sermon of Ali ibn Hussain in Damascus,” stirred public opposition to Yazid.