اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Wed 6-August-2025AD 11 Safar 1447AH

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکمرانی: فتوحات اور فلاحی ریاست کی بنیاد

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکمرانی فتوحات اور فلاحی ریاست کی بنیاد

مقدمہ

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، جو کہ خلیفہ ثانی اور امیرالمومنین کے طور پر مشہور ہیں، اسلامی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی ایمان، عدل و انصاف، بہادری، اور اسلامی سلطنت کی توسیع کے حوالے سے ایک روشن مثال ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں، قبول اسلام سے لے کر خلافت اور شہادت تک، دین اسلام کی خدمت کی اور ایک عادلانہ نظام قائم کیا جو آج بھی ایک نمونہ ہے۔ اس مضمون میں ہم ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں، بشمول ان کی ابتدائی زندگی، قبول اسلام، خلافت، فتوحات، ریاستی ذمہ داریاں، شہادت، اور وراثت پر تفصیل سے بات کریں گے، اور قرآنی آیات اور احادیث سے حوالہ جات پیش کریں گے۔

زندگی کا تعارف

حضرت عمر بن خطاب 586 یا 590 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ وہ قریش کے بنو عدی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جو قریش کے ایک معزز خاندان تھا۔ ان کے والد خطاب بن نفیل ایک تاجر تھے، جبکہ ان کی والدہ حنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھیں۔ حضرت عمر اپنی جوانی میں سخت مزاج، طاقتور، اور بہادر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کم عمری میں پڑھنا لکھنا سیکھ چکے تھے، جو اس وقت مکہ میں نایاب تھا۔ وہ شاعری، نسب نامہ، کشتی، گھڑ سواری، اور جنگی مہارتوں میں ماہر تھے۔ انہوں نے تجارت کے سلسلے میں عرب کے بڑے میلے جیسے عکاظ اور ذوالمجاز میں شرکت کی، جہاں انہوں نے عربوں کی تاریخ اور ثقافت کا گہرا مطالعہ کیا۔

تفصیلاتپہلو
سال 586 یا 590 عیسوی، مکہ مکرمہپیدائش
والد: خطاب بن نفیل، والدہ: حنتمہ بنت ہشام بن مغیرہوالدین
پڑھنا لکھنا، شاعری، نسب نامہ، کشتی، گھڑ سواری، جنگی مہارتیںمہارتیں
تاجر، قریش کے سفیرپیشہ

قبول اسلام

حضرت عمر کا قبول اسلام اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ وہ ابتدا میں اسلام کے سخت مخالف تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شدید نفرت رکھتے تھے۔ 616 عیسوی میں، نبوت کے چھٹے سال، ایک واقعہ نے ان کی زندگی بدل دی۔ جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے، تو راستے میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ان کے گھر پہنچ کر انہوں نے قرآن کی تلاوت سنی، جو سورہ طہٰ کی آیات تھیں: “بے شک میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو” (قرآن 20:14)۔ اس سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کیا۔

اس واقعے سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: “اے اللہ! ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے جو تیری نظر میں زیادہ پسندیدہ ہو، اس کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔” (سنن ترمذی، حدیث 3681)۔ اس دعا کے نتیجے میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا، جس سے مسلم کمیونٹی کو بہت تقویت ملی۔ ایک اور حدیث میں ہے: “اللہ تعالیٰ نے سچ کو عمر کے قلب و لسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے حق و باطل میں فرق کردیا۔” (طبقات ابن سعد)۔ ان کے قبول اسلام کے بعد، مسلمان کعبہ کے پاس کھلے عام نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، یہاں تک کہ عمر نے اسلام قبول کیا۔” (مستدرک للحاکم)۔

ابتدائی اسلامی برادری میں کردار

حضرت عمر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تقریباً تمام غزوات میں شریک رہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر خاص تھے۔ انہوں نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں بھی اہم خدمات انجام دیں۔ ان کی بہادری اور فیصلہ سازی کی صلاحیت نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی ساتھی بنایا۔ وہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔” (ترمذی، حدیث 3686)۔

خلافت

حضرت عمر 634 عیسوی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ بنے۔ انہوں نے اپنے دس سالہ دور خلافت میں اسلامی سلطنت کو ایک عظیم طاقت بنایا۔ ان کے اہم کارناموں میں شامل ہیں

  • ہجری کیلنڈر کا آغاز: 16 ہجری میں ہجری کیلنڈر متعارف کروایا، جو آج تک جاری ہے۔
  • بیت المال کا قیام: مالیاتی نظام کو منظم کیا اور بیت المال قائم کیا۔
  • عدالتی نظام: عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے، جیسے کہ قاضی شرعیح۔
  • مردم شماری: پہلی بار اسلامی سلطنت میں مردم شماری کرائی۔
  • شہروں کی بنیاد: بصرہ، کوفہ، فسطاط، اور موصل جیسے شہر آباد کیے۔
مزید پڑھیں:  حضرت عثمان غنی: شہادت اور اسلام کے لیے خدمات

انہوں نے عدل و انصاف کا ایک مثالی نظام قائم کیا، جہاں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا تھا۔ ایک واقعہ میں، جب عمرو بن العاص کے بیٹے نے ایک عام آدمی کو مارا، تو حضرت عمر نے اسے سزا دی، یہ کہتے ہوئے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے۔

فتوحات

حضرت عمر کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت نے بے مثال فتوحات حاصل کیں۔ انہوں نے شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان، اور مکران فتح کیے۔ ان کے دور میں 3600 علاقے فتح ہوئے، اور 900 جامع مساجد اور 4000 مساجد تعمیر ہوئیں (منہاج)۔ ان کی فتوحات نے اسلامی سلطنت کی حدود کو 22 لاکھ مربع میل تک پھیلایا (ڈان نیوز)۔ انہوں نے قیصر و کسریٰ کی طاقتوں کو شکست دی اور اسلام کا پرچم بلند کیا۔

حضرت عمر فاروقؓ کی فتح بیت المقدس کا واقعہ

جب رومی سلطنت کی عظمت زوال پذیر ہو چکی تھی اور اسلامی لشکر شام کی سرزمین کو ایمان کے نور سے منور کر رہے تھے، تب بیت المقدس—جسے ایلیا بھی کہا جاتا تھا—فتح کے قریب تھا۔
یہ واقعہ 15 ہجری (636–637 عیسوی) کا ہے۔

مسلمانوں کی فوج کی قیادت حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے عظیم جرنیل کر رہے تھے۔ رومی لشکر شکست کھا کر پسپا ہو چکا تھا، لیکن بیت المقدس کے عیسائی پادری اور عوام نے شرط رکھی کہ وہ شہر کی چابیاں خود امیر المومنین حضرت عمر بن خطابؓ کے دستِ مبارک میں دیں گے۔

یہ سن کر حضرت عمرؓ مدینہ منورہ سے بنفس نفیس روانہ ہوئے۔ تاریخ کہتی ہے کہ آپؓ کا قافلہ شان و شوکت سے خالی تھا—ایک اونٹ تھا جس پر کبھی آپؓ سوار ہوتے اور کبھی خادم۔ راستے میں جب خادم کی باری سوار ہونے کی آتی، تو عمرؓ زمین پر ننگے پاؤں چلتے، حتیٰ کہ بیت المقدس کے قریب اسی حالت میں پہنچے۔

جب عیسائی رہنما بطریَرک سوفرونیس نے دیکھا کہ جس فاتح کا چرچا پوری دنیا میں ہے، وہ سادگی میں اپنی مثال آپ ہے، تو اس کی آنکھیں حیرت اور عقیدت سے بھر گئیں۔ شہر کی کنجیاں حضرت عمر فاروقؓ کے ہاتھوں میں پیش کی گئیں۔

اس موقع پر حضرت عمرؓ نے معاہدۂ امن لکھوایا، جس میں غیر مسلموں کی جان و مال اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی ضمانت دی۔ اس عدل و رواداری کی مثال تاریخ میں کم ملتی ہے۔ پھر جب آپؓ کو قیامِ نماز کی جگہ دکھائی گئی، تو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں وہ جگہ منتخب فرمائی جہاں آج مسجد عمر موجود ہے۔

یوں بیت المقدس کی فتح تلوار کی دھار سے زیادہ ایمان اور انصاف کی روشنی سے ہوئی۔ اور اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ عدل کا پرچم ہمیشہ طاقت کے جھنڈے سے بلند رہتا ہے۔

اہم تفصیلاتفتح کا سالعلاقہ
خالد بن ولید کی قیادت میں فتح، یرموک کی جنگ اہم تھی۔تیرہ تا پندرہ ہجریشام
عمرو بن العاص نے فسطاط کو مرکز بنایا۔بیس ہجریمصر
قادسیہ کی جنگ میں سعد بن ابی وقاص نے فتح حاصل کی۔بارہ تا چودہ ہجریعراق
بیت المقدس حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں سے فتح کیا۔پندرہ ہجریبیت المقدس
نہاوند کی جنگ نے ساسانی سلطنت کا خاتمہ کیا۔سولہ تا بیس ہجریایران

ریاستی ذمہ داریاں

حضرت عمر نے ایک عادلانہ اور منظم ریاستی نظام قائم کیا۔ انہوں نے

  • پولیس کا نظام: پہلی بار پولیس کا محکمہ قائم کیا، جس کے سربراہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔
  • نہریں اور شہر: نہریں کھدوائیں اور شہر آباد کیے۔
  • سماجی بہبود: 18 ہجری کے قحط کے دوران، صوبوں سے خوراک منگوائی اور ہر فرد کو ماہانہ راشن دیا، حتیٰ کہ غلاموں کو بھی۔ یتیم خانوں اور مسافر خانوں کا قیام کیا۔
  • مالیاتی اصلاحات: خراج اور عشر ٹیکس متعارف کروائے، غیر مسلموں کے لیے جزیہ سے غریبوں کو مستثنیٰ کیا۔

ان کی سادگی اور تواضع مشہور تھی۔ وہ سادہ لباس پہنتے، اکثر 12 ٹکڑوں سے جوڑا ہوا کپڑا استعمال کرتے، اور اپنی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ بیت المال کو واپس کر دیتے۔

حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کی بیٹی کا نکاح

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، جنہیں فاروق اعظم کہا جاتا ہے، عدل و انصاف کے پیکر اور علم و تقویٰ کے چراغ تھے۔ ان کے دل میں اہل بیتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت موجزن تھی۔

ایک روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عرض کیا
“اے ابوالحسن! اپنی بیٹی اُمِ کلثوم کا نکاح مجھ سے کر دو۔”

حضرت علی نے ابتدا میں یہ سوچ کر توقف فرمایا کہ عمر کی عمر زیادہ ہے، اور شاید بیٹی کو دشواری ہو، مگر حضرت عمر نے فرمایا
“میرا مقصد محض یہ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان سے قرابت داری اور قربت کا شرف حاصل کروں۔”

مزید پڑھیں:  امام حسین کی شہادت کے بعد اہل بیت سے سلوک ۔۔۔

یہ سن کر حضرت علی کا دل نرم ہو گیا اور اہل بیت سے محبت کی اس عظیم طلب کو دیکھ کر اپنی کمسن صاحبزادی حضرت اُمِ کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے کر دیا۔

یہ نکاح صرف ایک نکاح نہ تھا بلکہ محبتِ اہل بیت اور صحابہ کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی گہرائی کا روشن نشان تھا۔ حضرت عمر کو اس نکاح سے ایک صاحبزادہ بھی عطا ہوا، جس کا نام زید رکھا گیا۔

اس نکاح نے ثابت کیا کہ صحابہ کرام میں کتنی الفت، احترام اور رشتہ داری کی چاہت تھی۔ حضرت عمر کا یہ عمل اہل بیت کی عظمت اور محبت کا ایسا ثبوت ہے جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دریائے نیل کو خط

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلافت کی مسند پر جلوہ افروز تھے۔ مصر کو فتح ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا۔ وہاں کا مشہور دریا نیل ہر سال سیلاب کی طرح چڑھتا اور زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ اہلِ مصر کی معیشت اسی پر قائم تھی۔

لیکن اُس سال نیل سوکھ گیا۔ پانی بڑھنے کی بجائے کم ہوتا چلا گیا۔ لوگوں کے چہرے مرجھا گئے۔ کھیت پیاسے رہ گئے۔ معیشت تباہ ہونے لگی۔

مصر کا گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ کو خط لکھتے ہیں کہ

حضرت عمرؓ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ فرمایا

“اللہ کی قسم! اسلام نے ایسی ظالمانہ اور شرکیہ رسموں کو مٹا دیا ہے۔ اگر نیل خود بہتا ہے تو ٹھہر جائے، اگر اللہ بہاتا ہے تو پھر اُسی سے مدد مانگنی ہے”

اسی وقت ایک مختصر مگر ایمان افروز خط لکھا اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو بھیج دیا۔

حضرت عمرؓ کا وہ خط پڑھ کر، دل تھام لیجیے کہ اس میں کیسا عزم اور اللہ پر کیسا بھروسہ تھا

🌿 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 🌿

یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطاب کی طرف سے دریائے نیل کے نام۔

اما بعد!

اے نیل! اگر تُو اپنی طرف سے بہتا ہے تو پھر نہ بہنا
اور اگر تجھے اللہ وحدہٗ لا شریک لہ بہاتا ہے تو میں اس ربِ عظیم سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے جاری رکھے۔

والسلام

حضرت عمرو بن العاصؓ نے اس خط کو ایک چادر میں لپیٹا اور لوگوں کی بھیڑ کے سامنے نہایت اطمینان سے دریائے نیل میں ڈال دیا۔ سب کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔

رات گزری، سحر ہوئی۔ لوگوں کی چیخیں خوشی سے بلند ہوئیں

🌊 نیل زور سے بہنے لگا
🌿 پانی کی موجیں شور کرتی ہوئیں کناروں سے اوپر چڑھ گئیں۔
💧 وہ دریا جو سوکھ گیا تھا، اللہ کے نام پر بہنے لگا۔

لوگ حیران رہ گئے کہ نہ کسی قربانی کی حاجت ہوئی، نہ کسی بت کو پکارا گیا۔ صرف اللہ کی کبریائی نے نیل کو زندگی عطا کر دی۔

شہادت

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ 27 ذوالحجہ 23 ہجری (مطابق 3 نومبر 644 عیسوی) کو مدینہ منورہ میں اس وقت شہید ہوئے جب وہ نمازِ فجر کی امامت فرما رہے تھے۔ ایک مجوسی غلام، ابو لؤلو فیروز، جو ایک ایرانی قیدی تھا، نے مسجد نبوی ﷺ میں چھپ کر ان پر خنجر سے وار کیا۔ روایت کے مطابق، جیسے ہی حضرت عمرؓ نے تکبیر کہی، حملہ آور نے وار کیا، جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: “کتے نے مجھے مار ڈالا یا کھا لیا۔” (صحیح بخاری)۔ اس حملے کے بعد آپ شدید زخمی ہو گئے، اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نماز مکمل کروائی۔

حضرت عمرؓ نے اپنی وصیت میں فرمایا کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ تین دن تک شدید زخمی رہنے کے بعد یکم محرم الحرام 24 ہجری کو آپؓ نے جام شہادت نوش فرمایا، اور وصیت کے مطابق آپ کو روضۂ رسول ﷺ میں دفن کیا گیا۔

یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور دردناک باب ہے، جس میں حضرت عمرؓ کی عظمت، تقویٰ، اور خلافت کی اعلیٰ مثالیں نظر آتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  عید غدیر: اہمیت اور اسلامی مسالک کے نظریات

وراثت

حضرت عمر کی وراثت اسلامی تاریخ میں ایک عظیم مقام رکھتی ہے۔ انہوں نے ہجری کیلنڈر، بیت المال، اور عدالتی نظام جیسے اداروں کی بنیاد رکھی۔ ان کا عدل و انصاف آج بھی ایک مثال ہے۔ ان کی سادگی، تقویٰ، اور اخلاص نے انہیں ایک مثالی حکمران بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے۔” (ترمذی، حدیث 3686)۔ ان کی فتوحات نے اسلام کو عالمی طاقت بنایا، اور ان کا نظام انتظام آج بھی حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

Frequently Asked Questions

Who was Hazrat Umar (RA)?

Hazrat Umar ibn Al-Khattab (RA) was the second Caliph of Islam after Hazrat Abu Bakr (RA). He was a brave, wise, and just leader. Born in Mecca, he accepted Islam after hearing Quran verses at his sister’s house. His acceptance strengthened Muslims. He ruled for about ten years and spread Islam widely. His leadership made the Islamic empire strong and respected. He is known as Farooq, the one who distinguishes truth from falsehood.

How did Hazrat Umar (RA) accept Islam?

At first, Hazrat Umar (RA) was an enemy of Islam. One day, he planned to kill Prophet Muhammad (PBUH). On his way, he learned that his own sister and brother-in-law had embraced Islam. He went to their house angrily and heard them reading Surah Ta-Ha. The words touched his heart deeply. He realized the truth of Islam and immediately accepted it. After this, Muslims became stronger and could pray openly without fear.

What important reforms did Hazrat Umar (RA) introduce?

Hazrat Umar (RA) made many reforms to improve governance. He started the Hijri calendar, organized the treasury (Bait-ul-Maal), and set up courts with appointed judges. He created a police department and began regular population surveys. He also built cities like Basra and Kufa. His fair rule helped everyone, whether Muslim or non-Muslim. During famine, he personally arranged food for people. His leadership became a model of justice, care, and good management.

What were Hazrat Umar’s (RA) major conquests?

During Hazrat Umar’s (RA) rule, the Islamic empire expanded greatly. Muslim armies conquered regions like Iraq, Syria, Egypt, Persia, and Jerusalem. These victories weakened the Roman and Persian empires. The conquest of Jerusalem was peaceful. He received the city’s keys himself. His conquests were not only about land but also about spreading justice and the message of Islam. In total, thousands of cities and mosques were built during his time as Caliph.

How did Hazrat Umar (RA) show justice and fairness?

Hazrat Umar (RA) was known for his strong sense of justice. He treated everyone equally, rich or poor. Once, the son of a governor beat a common man. Hazrat Umar called them and punished the governor’s son publicly. He said, “Since when have you enslaved people when their mothers gave birth to them free?” This shows his fairness. He always made sure no one was above the law, not even his own family.

What happened during the conquest of Jerusalem?

When Muslims reached Jerusalem, the people agreed to surrender but wanted to hand over the keys to Caliph Umar (RA) personally. He traveled from Medina with one servant and one camel. He shared a ride on the camel with his servant. He entered Jerusalem simply dressed. The Christians were amazed by his humility. He signed a peace agreement protecting everyone’s rights. This event showed his wisdom, simplicity, and respect for all communities.

What was the Nile letter incident?

When Egypt was conquered, people believed that sacrificing a girl in the Nile River would bring water. That year, the river dried up. They asked Hazrat Umar (RA) for permission to do the ritual. He refused and wrote a letter to the Nile: “If you flow by yourself, then stop. If Allah makes you flow, I pray to Him to let you flow.” When the letter was thrown in the river, it started flowing strongly.

How did Hazrat Umar (RA) care for the poor and needy?

Hazrat Umar (RA) cared deeply for people’s welfare. During a severe famine, he did not eat meat or butter until everyone had food. He arranged monthly rations for every person, including slaves and animals. He started pensions for widows and orphans. He built guest houses for travelers. He always visited people at night to check their problems secretly. His kindness and care made his rule an example of a true welfare state.

How did Hazrat Umar (RA) die?

Hazrat Umar (RA) was attacked while leading the Fajr prayer in Masjid Nabawi. A Persian slave named Abu Lulu stabbed him with a poisoned dagger. Even after being wounded, Hazrat Umar (RA) asked about the people’s prayers. After three days, he passed away. Before dying, he requested to be buried beside Prophet Muhammad (PBUH) and Hazrat Abu Bakr (RA). His death was a great loss to Muslims. His grave is in Madinah.

What is Hazrat Umar’s (RA) legacy today?

Hazrat Umar (RA) left a lasting legacy of justice, courage, and strong administration. His reforms, like the Hijri calendar and Bait-ul-Maal, are still respected. He showed how a ruler should be humble and care for people. His leadership turned Islam into a powerful civilization. Muslims around the world admire his example. Prophet Muhammad (PBUH) said, “If there were to be a prophet after me, it would have been Umar.” His life remains an inspiration.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *