تعارف
حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جس میں رجب بٹ نامی ایک یوٹیوبر نے یزید بن معاویہ پر لعنت کی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے آباؤ اجداد، یعنی حضرت معاویہ بن ابی سفیان، حضرت ابو سفیان بن حرب، اور حضرت ہندہ بنت عتبہ (رضی اللہ عنہم) پر بھی لعنت کی۔ اس بیان نے دنیا بھر کے مسلمانوں، خاص طور پر اہل سنت و جماعت کے ماننے والوں میں شدید غم و غصہ پیدا کیا، کیونکہ یہ حضرات صحابہ کرام میں شامل ہیں۔ اس معاملے پر دار الافتاء جامعہ نعیمیہ لاہور نے ایک تفصیلی فتویٰ جاری کیا، جو 8 جولائی 2025 (12 محرم الحرام 1447 ہجری) کو مفتی سید علی زین العابدین کرمانی نے تحریر کیا۔ یہ مضمون اس فتوے کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے اور اس میں اضافی اسلامی مآخذ سے بھی استفادہ کیا گیا ہے تاکہ اس حساس موضوع پر مکمل وضاحت پیش کی جا سکے۔
فتوے کے اہم نکات
یزید بن معاویہ کا شرعی مقام
- اہل سنت کا اتفاق: اہل سنت و جماعت کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ یزید بن معاویہ ایک فاسق، فاجر، اور اہل بیت کا دشمن تھا۔ وہ واقعہ کربلا میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اور دیگر اہل بیت کی شہادت کا ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ، واقعہ حرہ (مدینہ منورہ کی بے حرمتی) اور مکہ شریف پر حملہ اس کے دور کے جرائم ہیں۔
- لعنت کی اجازت: علامہ تفتازانی نے اپنی کتاب شرح عقائد (ص:344) میں لکھا کہ یزید پر لعنت کرنا جائز ہے، کیونکہ اس نے حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے قتل پر رضامندی ظاہر کی اور اہل بیت کی توہین کی۔ اسی طرح، امام احمد بن حنبل نے بھی یزید کو ملعون کہا (الصواعق المحرقہ، ص:222)۔
حضرت معاویہ، ابو سفیان، اور ہندہ کا مقام
حضرت معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہ)
- وہ صحابی رسول، کاتب وحی، اور جنتی ہیں۔ قرآن مجید کی سورۃ الحدید (57:10) میں صحابہ کرام کی عمومی فضیلت بیان کی گئی ہے، جس میں حضرت معاویہ بھی شامل ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہو سکتا جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور (کافروں سے) قتال کیا۔ ان کا (ان مسلمانوں سے) بڑا درجہ ہے جنہوں نے بعد میں (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور (کافروں سے) قتال کیا۔ اللہ نے ان سب سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔”
- امام نووی نے شرح مسلم (ج:1، ص:272) میں لکھا کہ حضرت معاویہ عادل، عالم، اور صاحب شرافت صحابہ میں سے تھے۔
- حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) نے ان کے صحابی ہونے کی گواہی دی (صحیح بخاری، ج:664)۔
حضرت ابو سفیان بن حرب (رضی اللہ عنہ)
- وہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور صحابی رسول ہیں۔ ان کی بیٹی، ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ (رضی اللہ عنہا)، رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں تھیں۔
- ان کا ذکر امام بخاری نے کتاب المناقب میں کیا اور ان کی فضیلت کو تسلیم کیا۔
حضرت ہندہ بنت عتبہ (رضی اللہ عنہا)
- وہ حضرت ابو سفیان کی زوجہ اور حضرت معاویہ کی والدہ ہیں۔ وہ بھی صحابی ہیں اور انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔
- صحیح بخاری (ج:163، حدیث:3825) میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ حضرت ہندہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ایمان کی تجدید کی اور اپنی سابقہ دشمنی سے توبہ کی۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی تصدیق فرمائی۔
- حدیث شریف میں ہے: “الإسلام يهدم ما كان قبله” یعنی “اسلام قبول کرنے سے پچھلے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں” (صحیح مسلم، ج:12، حدیث:13)۔ لہذا، ان کے قبول اسلام سے پہلے کے معاملات کو بیان کرنا یا ان کی بنیاد پر ان کی توہین کرنا حرام ہے۔
صحابہ کرام کی توہین کا شرعی حکم
قرآنی احکام
- سورۃ الحجرات (49:11): “اے ایمان والو! نہ کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق اڑائے، شاید وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، شاید وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ ایک دوسرے کو عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد نافرمانی کا نام لینا بہت برا ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے، وہی ظالم ہیں۔”
- سورۃ الحدید (57:10): صحابہ کرام کے لیے جنت کا وعدہ دیا گیا ہے۔
احادیث مبارکہ
- نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “میرے صحابہ کو گالی نہ دو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد کے پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، تو وہ ان کے ایک مُد یا اس کے نصف کے برابر بھی نہیں ہوگا۔” (صحیح بخاری، حدیث:3825)
- ایک اور حدیث میں ہے: “جو شخص میرے کسی صحابی کو گالی دے، اس پر اللہ، فرشتوں، اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔” (سنن ابو داؤد، حدیث:4350)
علماء کا موقف
- امام نووی نے شرح مسلم (ج:2، ص:310) میں لکھا کہ صحابہ کرام کو گالی دینا حرام اور انتہائی غلیظ عمل ہے۔
- امام احمد رضا خان نے فتاویٰ رضویہ (ج:29، ص:335-336) میں لکھا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جب میرے صحابہ کا ذکر آئے تو اپنی زبان روکو۔”
- شیخ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاویٰ (6/511) میں کہا کہ کسی مخصوص مسلم گنہگار کو لعنت کرنا جائز نہیں، جب تک کہ اس کا کفر ثابت نہ ہو۔
لہذا، حضرت معاویہ، ابو سفیان، اور ہندہ (رضی اللہ عنہم) پر لعنت کرنا یا ان کی توہین کرنا گناہ کبیرہ ہے اور شرعاً حرام ہے۔
رجب بٹ کے بیان کا شرعی اور قانونی جائزہ
شرعی نقطہ نظر
رجب بٹ کا عوامی طور پر صحابہ کرام کی توہین کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ فتویٰ میں واضح کیا گیا کہ یزید کے جرائم کو اس کے آباؤ اجداد کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ حضرات صحابہ ہیں اور ان کا یزید کے اعمال سے کوئی تعلق نہیں۔
- امام مالک نے شفاء شریف (ج:2، ص:552) میں فرمایا کہ جو شخص کسی صحابی کی تکفیر کرے، اسے سخت سزا دی جائے۔
- علامہ شباب الدین خفاجی نے لکھا کہ جو حضرت معاویہ پر طعن کرے، وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے (فتاویٰ رضویہ، ج:29، ص:264)۔
قانونی نقطہ نظر
پاکستان کے تعزیرات کے سیکشن 295-298 کے تحت صحابہ کرام یا دیگر اسلامی شخصیات کی توہین کرنا قابل سزا جرم ہے۔ رجب بٹ کے بیانات نے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے، اور فتویٰ میں تجویز کیا گیا کہ اسے سخت سزا دی جائے اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی لگائی جائے۔
- “پیغام پاکستان” نامی دستاویز، جو تمام مسالک کے علماء نے مل کر تیار کی، اس کی شق نمبر 12 میں واضح کیا گیا کہ انبیاء کرام، اہل بیت، صحابہ کرام، یا دیگر اسلامی شعائر کی توہین کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔ اسے ریاستی اداروں کے ذریعے نافذ کیا جانا چاہیے (پیغام پاکستان، ص:30-31)۔
اضافی مآخذ سے تصدیق
سنی فتووں کی روشنی میں
- اسلام کیو اینڈ اے پر ایک فتویٰ میں کہا گیا: “صحابہ کرام کی توہین کرنا جائز نہیں، کیونکہ وہ اس امت کے بہترین لوگ ہیں۔ ان کی توہین گناہ کبیرہ ہے اور اگر کوئی انہیں کافر سمجھے تو یہ کفر ہے۔
- شیخ ابن عثیمین نے القول المفید (1/226) میں کہا کہ کسی مخصوص شخص کو لعنت کرنا جائز نہیں، جب کہ عمومی گنہگاروں پر لعنت جائز ہے۔
تاریخی تناظر
- حضرت معاویہ، ابو سفیان، اور ہندہ (رضی اللہ عنہم) کی صحابی ہونے کی حیثیت سنی اسلامی تاریخ میں مسلمہ ہے۔
- اگرچہ حضرت معاویہ کا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تنازعہ تاریخی حقیقت ہے، لیکن ان کا صحابی ہونا ان کی فضیلت کو متاثر نہیں کرتا۔
سنی اور شیعہ نقطہ نظر میں فرق
- شیعہ مکتب فکر میں یزید کے ساتھ ساتھ حضرت معاویہ اور ان کے خاندان کو اہل بیت کے خلاف اقدامات کی وجہ سے منفی طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ فتویٰ سنی حنفی نقطہ نظر سے ہے، جو صحابہ کرام کے احترام پر زور دیتا ہے۔
- اس اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے، اسلامی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے حساس موضوعات پر احتیاط ضروری ہے۔
نتیجہ
- شرعی حکم
یزید بن معاویہ پر لعنت کرنا جائز ہے، لیکن اس کے آباؤ اجداد (حضرت معاویہ، ابو سفیان، اور ہندہ) پر لعنت کرنا یا ان کی توہین کرنا شرعاً حرام ہے، کیونکہ وہ صحابہ کرام ہیں۔ - قانونی عمل
رجب بٹ کے بیانات نہ صرف شرعی طور پر ناجائز ہیں بلکہ پاکستان کے قانون کے تحت بھی قابل سزا ہیں۔ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی اور قانونی کارروائی ضروری ہے تاکہ امن عامہ برقرار رہے۔ - اسلامی اتحاد
صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے احترام کو برقرار رکھنا اسلامی اتحاد کے لیے ضروری ہے۔ “پیغام پاکستان” اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام مسالک کے درمیان باہمی احترام کو فروغ دیا جائے۔ - تجویز
اس طرح کے حساس موضوعات پر عوامی بیانات دیتے وقت احتیاط برتی جائے اور معتبر علماء سے رہنمائی لی جائے۔
حوالہ جات
- فتویٰ:
- دار الافتاء جامعہ نعیمیہ لاہور، فتویٰ نمبر 26648/25، تاریخ: 8 جولائی 2025 (12 محرم الحرام 1447 ہجری)، مفتی سید علی زین العابدین کرمانی۔
- قرآنی آیات:
- سورۃ الحدید (57:10): صحابہ کرام کے لیے جنت کا وعدہ۔
- سورۃ الحجرات (49:11): توہین اور برے ناموں سے پکارنے کی ممانعت۔
- احادیث مبارکہ:
- صحیح بخاری، حدیث:3825: “میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔”
- سنن ابو داؤد، حدیث:4350: “جو میرے صحابی کو گالی دے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔”
- صحیح مسلم، ج:12، حدیث:13: “اسلام پچھلے گناہ مٹا دیتا ہے۔”
- علماء کے اقوال:
- امام نووی، شرح مسلم، ج:2، ص:310۔
- شیخ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، 6/511۔
- امام احمد رضا خان، فتاویٰ رضویہ، ج:29، ص:335-336۔
- قانونی حوالہ جات:
- تعزیرات پاکستان، سیکشن 295-298 (تہمت کے قوانین)۔
- “پیغام پاکستان”، شق نمبر 12، ص:30-31، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، 2018ء۔
حتمی نوٹ
یہ مضمون دار الافتاء جامعہ نعیمیہ کے فتوے اور اضافی سنی اسلامی مآخذ پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد اس حساس موضوع پر واضح اور جامع رہنمائی فراہم کرنا ہے، جب کہ تمام مسلم کمیونٹیز کے جذبات کا احترام کیا گیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں ہمیشہ معتبر علماء سے رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق اور اتحاد کی طرف رہنمائی فرمائے۔
FAQs on the Islamic Ruling Regarding Cursing Yazid and the Sahaba (Rajab Butt Gustakhi)
Is It Permissible to curse Yazid bin Muawiya according to Sunni Islamic Teachings?
According to the consensus of Ahl-e-Sunnat wal Jamaat, as outlined in the fatwa from Darul Ifta Jamia Naeemia, Lahore (dated July 8, 2025), cursing Yazid bin Muawiya is permissible. He is regarded as a fasiq (sinner), fajir (transgressor), and an enemy of the Ahl-e-Bait due to his role in the martyrdom of Hazrat Imam Hussain (RA) during the tragedy of Karbala, as well as other atrocities like the desecration of Madinah in the Harrah incident and the attack on Makkah. Prominent scholars, such as Allama Taftazani in Sharh Aqaid (p. 344) and Imam Ahmad bin Hanbal (Al-Sawaiq al-Muhriqa, p. 222), have affirmed that cursing Yazid is justified because of his satisfaction with the killing of Imam Hussain (RA) and his disrespect toward the Prophet’s household. However, this ruling is specific to Yazid and does not extend to his ancestors, who are revered Sahaba.
Why Is It Forbidden to Curse Hazrat Muawiya, Abu Sufyan, and Hindah (RA)?
The fatwa from Darul Ifta Jamia Naeemia clarifies that Hazrat Muawiya, Hazrat Abu Sufyan, and Hazrat Hindah (RA) are Sahaba (companions of the Prophet Muhammad ﷺ) and hold a high status in Islam. The Quran, in Surah Al-Hadid (57:10), promises paradise to all Sahaba, including those who accepted Islam before or after the conquest of Makkah. Hazrat Muawiya was a scribe of divine revelation and a companion, as testified by Hazrat Ibn Abbas (RA) in Sahih Bukhari (Hadith 664). Hazrat Abu Sufyan and Hazrat Hindah accepted Islam at the conquest of Makkah, and their past actions before Islam were forgiven, as per the Hadith: “Islam wipes out all previous sins” (Sahih Muslim, Hadith 13). Cursing or insulting them is a major sin (gunaah-e-kabira) and strictly prohibited, as it violates the respect owed to the Sahaba.
What Are the Consequences of Insulting the Sahaba in Islamic Law?
Insulting the Sahaba is considered a grave sin in Islamic law, as emphasized in the fatwa. Imam Nawawi in Sharh Muslim (Vol. 2, p. 310) states that slandering the Sahaba is among the most heinous prohibited acts. The Prophet Muhammad ﷺ said, “When my companions are mentioned, restrain your tongue” (Fatawa Razawiyya, Vol. 29, p. 335-336). Additionally, Imam Malik in Shifa Sharif (Vol. 2, p. 552) recommends severe punishment for those who defame any companion, such as Hazrat Muawiya or Hazrat Amr bin Aas (RA). Such actions not only constitute a religious offense but also disrupt communal harmony, making them liable for legal consequences under Pakistan’s penal code (Sections 295-298).
What Legal Actions Are Recommended Against Individuals Like Rajab Butt for Insulting the Sahaba?
Answer: The fatwa strongly condemns Rajab Butt’s public statement cursing the Sahaba and recommends strict legal action under Pakistan’s penal code, specifically Sections 295-298, which address offenses against religious sentiments. It suggests registering a case against him for hurting the religious feelings of millions of Muslims and disrupting public peace. The fatwa also proposes banning his social media accounts (including YouTube and TikTok) and imposing a lifetime restriction on his use of all media platforms to prevent further provocation. This aligns with Clause 12 of the “Paigham-e-Pakistan” document (p. 30-31), which emphasizes enforcing laws to protect the honor of the Sahaba, Ahl-e-Bait, and Islamic symbols while maintaining public order.
How Can Muslims Maintain Unity When Discussing Sensitive Issues Like Yazid and the Sahaba?
The fatwa underscores the importance of Islamic unity, particularly in addressing sensitive issues that may cause division between sects, such as Sunni and Shia perspectives on Yazid and Hazrat Muawiya. It references the “Paigham-e-Pakistan” document, collaboratively drafted by scholars of all Islamic sects in Pakistan, which promotes mutual respect and understanding. Muslims are urged to avoid public discussions that insult the Sahaba or Ahl-e-Bait, as these can lead to sectarian strife. The Quran in Surah Al-Hujurat (49:11) prohibits mockery and slander, emphasizing respect for all. By seeking guidance from credible scholars and upholding the sanctity of revered Islamic figures, Muslims can foster harmony and strengthen the collective honor of the Ummah.