اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Wed 6-August-2025AD 11 Safar 1447AH

Israeli-Palestinian conflict: Two-state solution, Historical background, and Current situation in Gaza – اسرائیل اور فلسطین کا تنازع: دو ریاستی حل، تاریخی پس منظر اور غزہ کی حالیہ صورتحال

Israeli-Palestinian conflict two-state solution, historical background, and current situation in Gaza

Israeli-Palestinian conflict: Two-state solution, Historical background, and Current situation in Gaza – اسرائیل اور فلسطین کا تنازع: دو ریاستی حل، تاریخی پس منظر اور غزہ کی حالیہ صورتحال

تعارف

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع دنیا کے قدیم اور پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے۔ اس تنازع کی جڑیں تاریخی، سیاسی، اور مذہبی عوامل میں پیوست ہیں۔ اسے حل کرنے کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی ہیں، جن میں سے “دو ریاستی حل” سب سے نمایاں ہے۔ اس بلاگ پوسٹ میں، ہم ہولوکاسٹ، اسرائیل کے قیام، فلسطین کی تقسیم، دو ریاستی حل، اسلامی نقطہ نظر، قائداعظم اور پاکستان کے موقف، عرب ممالک کے کردار، اور غزہ کی حالیہ صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

ہولوکاسٹ: تاریخ اور اسباب

ہولوکاسٹ، جسے عبری میں “شُواہ” (تباہی) کہا جاتا ہے، دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کے دوران نازی جرمنی کی طرف سے یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے منظم قتل عام کو کہتے ہیں۔ اڈولف ہٹلر، جو 1933 سے 1945 تک جرمنی کے چانسلر تھے، نے نازی پارٹی کے ساتھ مل کر آریائی نسل کی برتری کے نظریے کو فروغ دیا۔ انہوں نے یہودیوں کو جرمنی کی معاشی اور سماجی مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور انہیں “ناقابل قبول” قرار دیا۔

ہولوکاسٹ کا آغاز 1933 میں ہوا جب نازیوں نے یہودیوں کے خلاف امتیازی قوانین نافذ کیے، جیسے کہ نورمبرگ قوانین (1935)۔ تاہم، منظم قتل عام 1941 میں شروع ہوا، جب نازیوں نے سوویت یونین پر حملہ کیا اور “فائنل سلوشن” نامی پالیسی اپنائی، جس کا مقصد یورپ کے تمام یہودیوں کو ختم کرنا تھا۔ اس کے لیے موت کے کیمپ، جیسے آشوٹز، ٹریبلنکا، اور چیلمنو، قائم کیے گئے، جہاں گیس چیمبرز اور دیگر طریقوں سے لاکھوں افراد کو قتل کیا گیا۔ مجموعی طور پر، تقریباً 60 لاکھ یہودی اور لاکھوں دیگر افراد، جیسے روما، معذور، اور سیاسی مخالفین، ہلاک ہوئے۔

جوزف گوئبلز، نازی جرمنی کے پروپیگنڈا وزیر، نے یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے میڈیا اور پروپیگنڈا کے ذریعے یہودیوں کو شیطان کے طور پر پیش کیا، جس نے ہولوکاسٹ کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔

ہولوکاسٹ نے عالمی سطح پر یہودیوں کے لیے ہمدردی پیدا کی اور صیہونی تحریک، جو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی وکالت کرتی تھی، کو تقویت دی۔ اس نے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی۔

حوالہ: ہولوکاسٹ – ویکیپیڈیا

اسرائیل کا قیام اور فلسطین کی تقسیم

دوسری عالمی جنگ کے بعد، فلسطین برطانوی مینڈیٹ کے تحت تھا۔ ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کی بڑھتی ہوئی ہجرت اور صیہونی تحریک کی وجہ سے برطانیہ نے اقوام متحدہ سے مدد طلب کی۔ 29 نومبر 1947 کو، اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی، جس میں فلسطین کو دو الگ الگ ریاستوں—ایک یہودی اور ایک عرب—میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی۔ یروشلم کو بین الاقوامی شہر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہودی رہنماؤں نے اس منصوبے کو قبول کیا، لیکن عرب ہائر کمیٹی اور عرب لیگ نے اسے مسترد کر دیا، کیونکہ وہ اسے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کے خلاف سمجھتے تھے۔ 14 مئی 1948 کو، اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ اگلے دن، مصر، اردن، شام، اور دیگر عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کر دیا، جسے 1948 کی عرب-اسرائیل جنگ کہا جاتا ہے۔

اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے اقوام متحدہ کے منصوبے سے زیادہ علاقہ حاصل کر لیا، جبکہ تقریباً 700,000 فلسطینی بے گھر ہوئے، جنہیں “نقبہ” (تباہی) کہا جاتا ہے۔ فلسطینیوں نے یہودیوں کو زمین نہیں دی؛ بلکہ یہ تقسیم اقوام متحدہ کے فیصلے اور جنگ کے نتیجے میں ہوئی۔

حوالہ:فلسطین جنگ 1949–1947- ویکیپیڈیا

دو ریاستی حل کیا ہے؟

دو ریاستی حل ایک مجوزہ حل ہے جس کے تحت سابقہ فلسطین کے علاقے میں دو الگ الگ ریاستیں قائم کی جائیں گی: ایک یہودیوں کے لیے (اسرائیل) اور ایک فلسطینیوں کے لیے (فلسطین)۔ اس خیال کی ابتدا 1937 میں برطانوی پیل کمیشن سے ہوئی، اور 1947 کی اقوام متحدہ کی قرارداد 181 نے اسے باقاعدہ طور پر پیش کیا۔

مزید پڑھیں:  Tragic situation in Gaza in July 2025 - غزہ میں جولائی 2025 کی المناک صورتحال

سال 1993 کے اوسلو معاہدوں نے اس حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، جس کے تحت فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی۔ تاہم، سرحدی تنازعات، یہودی بستیوں کی تعمیر، اور سیاسی اختلافات کی وجہ سے یہ عمل کامیاب نہ ہو سکا۔ عالمی برادری، بشمول اقوام متحدہ، اس حل کی حمایت کرتی ہے، لیکن اسرائیلی رہنما، جیسے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو، نے حالیہ برسوں میں اس کی مخالفت کی ہے۔

حوالہ: دو ریاستی حل – ویکیپیڈیا

اسلامی نقطہ نظر

اسلامی دنیا میں، دو ریاستی حل کو عام طور پر حمایت حاصل ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، جو 57 مسلم اکثریتی ممالک کی نمائندگی کرتی ہے، 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتی ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ OIC نے اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا اور اسے امن عمل کے لیے نقصان دہ سمجھا۔

تاہم، اسلامی دنیا میں اس حل پر مختلف آراء موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، حماس نے تاریخی طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ 2017 میں، حماس نے اپنے منشور میں ترمیم کرتے ہوئے 1967 کی سرحدوں کے اندر ایک فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کا اعلان کیا، لیکن اسرائیل کی تسلیم کے بغیر۔ پاکستان کی ملی یکجہتی کونسل جیسے کچھ گروہ دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطین کی مکمل آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

تفصیلاتدو ریاستی حل پر موقفتنظیم/گروہ
سال 1967 کی سرحدوں پر مبنی فلسطینی ریاست کی حمایت، مشرقی یروشلم دارالحکومت کے طور پر۔حمایت(OIC) اسلامی تعاون تنظیم
سال 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست قبول، لیکن اسرائیل کی تسلیم کے بغیر۔مشروط حمایتحماس
دو ریاستی حل کو مسترد کرتی ہے، فلسطین کی مکمل آزادی کا مطالبہ۔مخالفتملی یکجہتی کونسل (پاکستان)

حوالہ: اسلامی تعاون کی تنظیم – ویکیپیڈیا

قائداعظم کا موقف

قائداعظم محمد علی جناح فلسطینیوں کے حق میں تھے اور اسرائیل کے قیام کے خلاف تھے۔ انہوں نے 1917 کے بالفور اعلان کی مذمت کی، جس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی گھر کے قیام کی حمایت کی تھی۔ 1938 میں، مسلم لیگ کے پٹنہ اجلاس میں، جناح نے بالفور اعلان کو برطانوی سامراج کا ہتھیار قرار دیا۔

1947 میں، جب اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا، جناح نے امریکی صدر ہیری ٹرومین کو خط لکھ کر اس کی مخالفت کی اور فلسطینیوں کی حمایت کی۔ انہوں نے اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی طرف سے سفارتی تعلقات کی درخواست کا جواب نہیں دیا، کیونکہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کو ترجیح دیتے تھے۔ جناح نے فلسطین کو اسلام کا پہلا قبلہ سمجھا اور اس کی آزادی کے لیے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلسل آواز اٹھائی۔

مزید پڑھیں:  ایرانی میزائلوں نے کون کونسے دفاعی نظام فیل کر دے؟
تفصیلاتتاریخواقعہ/بیان
پٹنہ اجلاس میں بالفور اعلان کو برطانوی سامراج کا ہتھیار قرار دیا۔دسمبر 1938بالفور اعلان کی مذمت
فلسطین کی تقسیم روکنے کی درخواست کی۔دسمبر 1947صدر ٹرومین کو خط
سفارتی تعلقات کی درخواست کو نظر انداز کیا۔1947بن گوریون کی درخواست کا عدم جواب

حوالہ: جناح، فلسطین اور اسرائیل | ایکسپریس ٹریبیون

پاکستان کا موقف

پاکستان نے 1948 سے اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی ہے۔ یہ موقف قائداعظم کے اصولوں پر مبنی ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ “اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے درست ہے”، جو اس موقف کی عکاسی کرتا ہے۔

سال 2005 میں، صدر پرویز مشرف نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر غور کیا، لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ 2020 کے ابراہیم معاہدوں کے بعد، کچھ خلیجی ممالک کی طرف سے دباؤ آیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے، لیکن وزیراعظم عمران خان اور بعد میں وزیر خارجہ ایشاق ڈار نے واضح کیا کہ جب تک فلسطینیوں کے لیے ایک قابل عمل ریاست قائم نہیں ہوتی، اسرائیل کی تسلیم ممکن نہیں ہے۔

حوالہ: اسرائیل پاکستان تعلقات – ویکیپیڈیا

عرب ممالک اور اسرائیل کی تسلیم

سال 2020 میں، ابراہیم معاہدوں کے ذریعے، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ ان معاہدوں کو بعض حلقوں نے فلسطینیوں کے ساتھ غداری قرار دیا، جبکہ دیگر نے انہیں علاقائی امن کی طرف قدم سمجھا۔ فلسطینی رہنماؤں نے ان معاہدوں کی مذمت کی، اور ترکی جیسے ممالک نے بھی ان کی مخالفت کی۔

پاکستان نے ان معاہدوں میں شمولیت سے انکار کیا اور دو ریاستی حل کی حمایت جاری رکھی۔ 2025 میں، وزیر خارجہ ایشاق ڈار نے واضح کیا کہ پاکستان فلسطینی تنازع کے منصفانہ حل تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔

تفصیلاتسالاسرائیل کی تسلیمملک
ابراہیم معاہدوں کے تحت سفارتی تعلقات قائم کیے۔2020ہاںمتحدہ عرب امارات
ابراہیم معاہدوں کا حصہ، فلسطینیوں نے مذمت کی۔2020ہاںبحرین
معاشی مراعات کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کیا۔2020ہاںسوڈان
مغربی صحارا پر امریکی حمایت کے بدلے تسلیم کیا۔2020ہاںمراکش
فلسطینی ریاست کے قیام تک تسلیم سے انکار۔نہیںپاکستان

غزہ کی حالیہ صورتحال

سال 2025 میں، غزہ میں تنازع جاری ہے، جو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے اور اسرائیل کے جوابی فوجی آپریشن سے شروع ہوا۔ 24 جولائی 2025 تک، غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 59,866 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے 80 فیصد عام شہری ہیں، اور 70 فیصد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق، 1,983 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، 110,265 سے زائد افراد زخمی ہیں، جن میں سے تقریباً 22,500 کو زندگی بدل دینے والے زخموں کا سامنا ہے۔

انسانی بحران انتہائی سنگین ہے۔ خوراک کی قلت، پانی کی کمی، اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ میں قحط کا خطرہ ہے، اور 29 جولائی 2025 کو، الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فورسز نے ایک دن میں 62 فلسطینیوں کو شہید کیا، جبکہ امدادی کارروائیوں کے لیے جنگ بندی کے وقفے بھی کیے گئے۔ رپورٹس کے مطابق، 14,222 افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا ناقابل رسائی علاقوں میں ہیں۔

امدادی کوششوں کے باوجود، اسرائیل کی ناکہ بندی اور مسلسل فوجی کارروائیوں نے امداد کی ترسیل کو مشکل بنا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے نے رپورٹ کیا کہ ہر روز 10 بچوں کو ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہونا پڑتا ہے، اور 4,500 سے زائد افراد کے اعضاء کاٹے جا چکے ہیں، اکثر بغیر اینستھیزیا کے۔

تفصیلاتپہلو
تقریبا 59,866 فلسطینی، 1,983 اسرائیلی (24 جولائی 2025 تک)شہادتیں
تقریبا 110,265 سے زائد، جن میں 22,500 کو زندگی بدل دینے والے زخمزخمی
خوراک کی قلت، پانی کی کمی، طبی سہولیات کی عدم دستیابی، قحط کا خطرہانسانی بحران
تاریخ 29 جولائی 2025 کو 62 فلسطینی شہید، امدادی وقفوں کے باوجود تنازع جاریحالیہ واقعات

اختتام

اسرائیل-فلسطین تنازع ایک پیچیدہ اور حساس مسئلہ ہے، جس کی جڑیں تاریخی، سیاسی، اور مذہبی عوامل میں ہیں۔ ہولوکاسٹ نے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی، لیکن فلسطینیوں کے لیے اس کا نتیجہ نقبہ کی صورت میں نکلا۔ دو ریاستی حل ایک ممکنہ حل ہے، لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان، قائداعظم کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے، فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھتا ہے۔ غزہ کی حالیہ صورتحال انسانی المیے کی عکاسی کرتی ہے، اور عالمی برادری کو اس کے حل کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  ایران کا نیوکلیئر پروگرام: کیا یہ نیوکلیئر طاقت بن سکتا ہے؟

FAQs on the Israeli-Palestinian Conflict: Two-State Solution, Historical Background, and Current Situation in Gaza

What is the Israeli-Palestinian Conflict?

The Israeli-Palestinian conflict is a decades-long dispute between Israelis and Palestinians over land, sovereignty, and self-determination in the region of historic Palestine. It is rooted in historical, political, and religious factors, with key events including the Holocaust, the establishment of Israel, the displacement of Palestinians (Nakba), and ongoing territorial disputes.

What was the Holocaust, and how did it influence the conflict?

The Holocaust (1939–1945) was the systematic genocide of approximately six million Jews and millions of others by Nazi Germany. Driven by Adolf Hitler’s anti-Semitic ideology, it led to widespread international sympathy for Jews and strengthened the Zionist movement, advocating for a Jewish homeland in Palestine. This paved the way for the establishment of Israel in 1948.

How was Israel established, and what was the UN Partition Plan?

After World War II, Palestine was under British control. Due to increasing Jewish immigration and Zionist advocacy, the United Nations passed Resolution 181 on November 29, 1947, proposing the partition of Palestine into separate Jewish and Arab states, with Jerusalem as an international city. Jewish leaders accepted the plan, but Arab leaders rejected it, leading to the 1948 Arab-Israeli War. Israel declared independence on May 14, 1948, and gained additional territory, while approximately 700,000 Palestinians were displaced, an event known as the Nakba.

What is the Two-State Solution?

The two-state solution proposes the establishment of two separate states in the region of historic Palestine: one for Israelis (Israel) and one for Palestinians (Palestine). First proposed by the 1937 Peel Commission and formalized in the 1947 UN Partition Plan, it gained traction with the 1993 Oslo Accords. However, issues like borders, Israeli settlements, and political disagreements have hindered its implementation. Critics argue it is impractical while Israel occupies internationally recognized Palestinian territories.

What is the Islamic perspective on the Two-State Solution?

The Organisation of Islamic Cooperation (OIC), representing 57 Muslim-majority countries, supports a Palestinian state based on 1967 borders with East Jerusalem as its capital. However, views vary: Hamas conditionally accepts a Palestinian state within 1967 borders without recognizing Israel, while groups like Pakistan’s Milli Yakjehti Council reject the two-state solution, demanding full Palestinian liberation.

What was Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah’s stance on the conflict?

Quaid-e-Azam, the founder of Pakistan, opposed the establishment of Israel and supported Palestinian rights. He condemned the 1917 Balfour Declaration, which endorsed a Jewish homeland in Palestine, as a tool of British imperialism. In 1947, he wrote to U.S. President Harry Truman opposing the UN Partition Plan and ignored a request for diplomatic relations from Israel’s first Prime Minister, David Ben-Gurion.

What is Pakistan’s position on the Israeli-Palestinian conflict?

Pakistan has not recognized Israel since 1948 and consistently supports Palestinian self-determination, a stance rooted in Quaid-e-Azam’s principles. Pakistani passports explicitly state they are valid for all countries except Israel. Despite external pressures, such as after the 2020 Abraham Accords, Pakistan maintains it will not recognize Israel until a viable Palestinian state is established.

What are the Abraham Accords, and how have Arab countries responded?

The Abraham Accords, signed in 2020, normalized diplomatic relations between Israel and the United Arab Emirates, Bahrain, Sudan, and Morocco. Some view these agreements as steps toward regional peace, while others, including Palestinian leaders and countries like Turkey, criticize them as a betrayal of the Palestinian cause. Pakistan has refused to join the accords, prioritizing a just resolution for Palestinians.

What is the current situation in Gaza (as of July 2025)?

The conflict in Gaza, intensified since Hamas’s October 7, 2023, attack and Israel’s subsequent military response, remains severe. As of July 24, 2025, Gaza’s Ministry of Health reports 59,866 Palestinian deaths (80% civilians, 70% women and children) and 110,265 injuries, with 22,500 facing life-altering wounds. Israel reports 1,983 deaths. A humanitarian crisis persists, with food shortages, water scarcity, and limited medical facilities. The UN warns of famine risks, and aid delivery is hampered by Israel’s blockade and ongoing military operations.

What challenges does the Two-State Solution face today?

The two-state solution faces obstacles such as Israeli settlement expansion in occupied territories, disputes over borders, the status of Jerusalem, and differing political wills. Israel’s current leadership, including Prime Minister Benjamin Netanyahu, has opposed the solution, while Palestinian factions like Hamas have varying stances. The ongoing occupation and power imbalances further complicate negotiations.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *