تعارف
اسرائیل نے 7 جولائی 2025 کو ایک اہم اعلان کیا، جس میں غزہ کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلا کرنے کی آمادگی ظاہر کی گئی۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی دفاعی فوج (آئی ڈی ایف) غزہ کے 75 فیصد علاقوں سے، جو اس کے کنٹرول میں ہیں، انخلا کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ باقی 25 فیصد علاقوں میں جنگ جاری رکھنا غیر ضروری ہوگا، کیونکہ یہ اسرائیلی یرغمالوں کی حفاظت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ اعلان اسرائیل-حماس تنازعہ میں ایک ممکنہ پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو کئی سالوں سے جاری ہے۔
اسرائیل کاٹز کا بیان
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اپنے بیان میں کہا کہ “دن کے بعد” غزہ ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں حماس کا وجود نہیں ہوگا، دہشت گرد رہنماؤں کو نکال دیا جائے گا، اور مشرق وسطیٰ میں تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ آئی ڈی ایف غزہ کے 75 فیصد زیر قبضہ علاقوں سے انخلا کرے گی، جبکہ باقی 25 فیصد علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری رکھنا اسرائیلی یرغمالوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ بیان ایک 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے مجوزہ معاہدے کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔
اقتباس: “آئی ڈی ایف غزہ کے 75 فیصد حصے میں سے زیادہ تر سے انخلا کرے گی جو اس کے کنٹرول میں ہے۔ باقی 25 فیصد میں جنگ جاری رکھنا اسرائیلی یرغمالوں کو غیر ضروری خطرے میں ڈالے گا۔”
اسرائیل کاٹز، 7 جولائی 2025 (ایکس پر مشرق وسطیٰ 24)
تنازعہ کا پس منظر
غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنی بستیوں اور فوجی تنصیبات کو ختم کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے اس نے غزہ پر سخت ناکہ بندی عائد کی، جسے مصر نے بھی حمایت دی۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا، اسرائیل نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کی۔ اس کارروائی کے نتیجے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اپریل 2025 تک کم از کم 50,500 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری، خواتین، اور بچے شامل ہیں۔
2025 کے آغاز میں ایک جنگ بندی ہوئی، لیکن مارچ کے وسط میں اس کا خاتمہ ہوا، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ کے تقریباً 65 فیصد علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ جولائی 2025 تک، اسرائیل نے غزہ کے 75 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جیسا کہ اسرائیلی ذرائع نے رپورٹ کیا۔ اس تناظر میں، اسرائیل کاٹز کا حالیہ بیان ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ یہ غزہ سے بڑے پیمانے پر انخلا کی بات کرتا ہے۔
مجوزہ منصوبے کی تفصیلات
اسرائیل کاٹز کے بیان کے مطابق، غزہ سے انخلا ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں
تفصیل | پہلو |
---|---|
آئی ڈی ایف غزہ کے 75 فیصد زیر قبضہ علاقوں سے انخلا کرے گی، جو مارچ 2025 سے اس کے کنٹرول میں ہیں۔ | انخلا |
60 روزہ جنگ بندی کا معاہدہ، جس کے دوران 10 اسرائیلی یرغمالوں اور 18 دیگر کے جسد خاکی کی رہائی متوقع ہے۔ | جنگ بندی |
حماس کی فوجی اور سیاسی صلاحیتوں کو ختم کرنے اور دہشت گرد رہنماؤں کو نکالنے کا ہدف۔ | حماس کے بغیر غزہ |
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا۔ | علاقائی تعاون |
یہ منصوبہ امریکی ثالثی میں پیش کیے گئے ایک معاہدے کا حصہ ہے، جس پر حماس نے 4 جولائی 2025 کو “مثبت ردعمل” دیا۔ معاہدے کے تحت، اسرائیل شمالی غزہ کے کچھ حصوں سے انخلا کرے گا، اور فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع کریں گے۔ تاہم، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے پہلے کہا تھا کہ اسرائیل اپنے تمام اہداف حاصل کیے بغیر جنگ ختم نہیں کرے گا، جو اس معاہدے کی راہ میں ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔
متعلقہ پیش رفت
اسرائیل کاٹز نے ایک اور متنازع منصوبے کا بھی ذکر کیا، جس کے تحت غزہ کی پوری آبادی کو رفح کے کھنڈرات پر بنائے گئے ایک “انسانی شہر” میں منتقل کیا جائے گا۔ اس علاقے سے فلسطینیوں کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہوگی، اور آئی ڈی ایف اس کی حفاظت کرے گی۔ اس منصوبے کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے “جرائم کے خلاف انسانیت” کا منصوبہ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ فلسطینی آبادی کی جبری منتقلی اور ان کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔
یہ واضح نہیں کہ انخلا کا منصوبہ اور “انسانی شہر” کا منصوبہ ایک دوسرے سے کس طرح مربوط ہیں۔ ممکن ہے کہ اسرائیل غزہ کے دیگر علاقوں سے انخلا کے بعد آبادی کو ایک مخصوص علاقے میں مرتکز کر کے اپنا کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہو۔ (یروشلم پوسٹ)
ردعمل
اس اعلان پر فلسطینی حکام، حماس، یا بین الاقوامی برادری کی طرف سے فوری ردعمل کی تفصیلات فی الحال دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم، ماضی میں اس طرح کے منصوبوں پر فلسطینیوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر جبری منتقلی کے منصوبوں کے خلاف۔ بین الاقوامی برادری، بشمول اقوام متحدہ، نے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کے اندر بھی رائے منقسم ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر نے جنگ بندی اور انخلا کے کسی بھی معاہدے کی مخالفت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے گا۔ دوسری طرف، یرغمالوں کے اہل خانہ اور اسرائیلی عوام کا ایک حصہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ (سی این این)
نتائج اور امکانات
اسرائیل کاٹز کا اعلان غزہ میں تنازعہ کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے، لیکن اس کے کامیاب نفاذ کے لیے کئی چیلنجز ہیں
- حماس کا ردعمل: حماس نے جنگ بندی کے معاہدے پر مثبت ردعمل دیا ہے، لیکن وہ مستقل جنگ بندی اور مکمل انخلا کا مطالبہ کر رہی ہے، جو اسرائیل کے اہداف سے متصادم ہو سکتا ہے۔
- بین الاقوامی دباؤ: اقوام متحدہ اور دیگر ممالک غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل کے “انسانی شہر” کے منصوبے پر تنقید اس دباؤ کو بڑھا سکتی ہے۔
- داخلی سیاست: اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کی اتحادی جماعتوں میں اختلافات اس معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
- یرغمالوں کی رہائی: یرغمالوں کی حفاظت اور رہائی اس منصوبے کی کامیابی کے لیے کلیدی ہے۔
اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو یہ غزہ میں کشیدگی کو کم کر سکتا ہے اور طویل مدتی امن مذاکرات کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ تاہم، اگر اس پر عملدرآمد نہ ہوا یا اسے فلسطینیوں کے خلاف جبری اقدامات کے طور پر استعمال کیا گیا تو یہ تنازعہ کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
نتیجہ
اسرائیل کا غزہ کے 75 فیصد زیر قبضہ علاقوں سے انخلا کرنے کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے، جو تنازعہ کے حل کی امید کو بڑھاتا ہے۔ تاہم، اس منصوبے کی کامیابی کا انحصار اس کے نفاذ، حماس کے ردعمل، اور بین الاقوامی برادری کے تعاون پر ہے۔ اسرائیل کاٹز کا بیان ایک نئے دور کی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن اس کے نتائج کا تعین وقت کرے گا۔ (دی ٹائمز آف اسرائیل)
Frequently Asked Questions: Israel’s Readiness to Withdraw from Occupied Gaza
What has Israel announced regarding its withdrawal from Gaza?
On July 7, 2025, Israeli Defense Minister Israel Katz announced that the Israeli Defense Forces (IDF) are prepared to withdraw from 75% of the Gaza territories under their control. This decision is part of a proposed 60-day ceasefire agreement aimed at securing the release of hostages and reducing hostilities. Katz emphasized that continuing military operations in the remaining 25% of Gaza could endanger Israeli hostages, signaling a strategic shift to prioritize their safety.
Why is Israel considering withdrawal from Gaza now?
The decision comes in the context of the ongoing Israel-Hamas conflict, intensified by Hamas’ attack on October 7, 2023, which killed 1,200 people and led to 250 hostages. Israel’s subsequent military campaign has resulted in significant casualties, with Gaza’s Health Ministry reporting at least 50,500 deaths by April 2025. The proposed withdrawal aligns with a U.S.-mediated agreement to de-escalate tensions, release hostages, and potentially pave the way for permanent ceasefire talks, amid growing international pressure to address the humanitarian crisis in Gaza.
What are the key components of the proposed withdrawal plan?
The plan includes the IDF withdrawing from 75% of the occupied Gaza territories, a 60-day ceasefire, and the expected release of 10 Israeli hostages and the remains of 18 others. Israel aims to dismantle Hamas’ military and political capabilities, expel its leaders, and promote regional cooperation in the Middle East. However, the controversial proposal to relocate Gaza’s population to a “humanitarian city” in Rafah’s ruins has drawn criticism from human rights groups as a potential violation of international law.
What is the “humanitarian city” plan mentioned in the announcement?
Israel Katz referenced a plan to relocate Gaza’s entire population to a designated “humanitarian city” in the ruins of Rafah, where Palestinians would be confined under IDF protection. This proposal has been condemned by human rights organizations as a form of forced displacement, potentially constituting a “crime against humanity.” The relationship between this plan and the withdrawal remains unclear, raising concerns about Israel’s intentions to maintain control over Gaza’s population.
What challenges might affect the implementation of the withdrawal plan?
Several challenges could hinder the plan’s success: Hamas demands a permanent ceasefire and full withdrawal, which conflicts with Israel’s objectives; international criticism of the “humanitarian city” plan may increase pressure on Israel; internal political divisions, with figures like National Security Minister Itamar Ben-Gvir opposing any ceasefire; and the safe release of hostages remains a critical factor. Failure to address these issues could deepen the conflict, while successful implementation might reduce tensions and foster long-term peace negotiations.