تعارف
ایران سے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے میزائلوں کو اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے کئی ممالک کی فضائی حدود سے گزرنا پڑتا ہے، جن میں سے ہر ایک کے اپنے دفاعی نظام ہیں جو ممکنہ طور پر ان میزائلوں کو روک سکتے ہیں۔ یہ مضمون ان ممالک کی فضائی حدود اور ان کے راستے میں موجود دفاعی نظاموں کا تفصیلی جائزہ پیش کرتا ہے، خاص طور پر اپریل 2024 کے ایرانی حملوں کے تناظر میں، جب ایران نے اسرائیل پر براہ راست میزائل اور ڈرون حملے کیے (اپریل 2024 ایرانی حملے)۔
میزائلوں کے ممکنہ راستے
ایران سے اسرائیل تک میزائل، جیسے کہ بیلسٹک میزائل، کروز میزائل، اور ڈرون، عام طور پر عراق کی فضائی حدود سے گزرتے ہیں، جو ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک اہم جغرافیائی پل ہے۔ اس کے بعد، میزائل یا تو اردن یا شام کی فضائی حدود سے گزر کر اسرائیل تک پہنچتے ہیں، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہدف اسرائیل کے کس حصے میں ہے۔ مثال کے طور پر، جنوبی اسرائیل (جیسے کہ نیواٹیم ایئر بیس) کو نشانہ بنانے والے میزائل زیادہ تر اردن کے اوپر سے گزرتے ہیں، جبکہ شمالی اسرائیل (جیسے کہ گولان ہائٹس) کے اہداف کے لیے شام کا راستہ زیادہ ممکنہ ہے (ایرانی حملوں کا نقشہ بنانا)۔
اپریل 2024 کے حملوں کے دوران، ایران نے 170 سے زائد ڈرون، 30 سے زیادہ کروز میزائل، اور 120 سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے، جن میں سے کچھ عراق اور اردن کی فضائی حدود سے گزرے۔ رپورٹس کے مطابق، اردن نے اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والے تقریباً 20 فیصد ڈرونز کو روکا، جبکہ شام کے بارے میں ایسی کوئی واضح رپورٹ نہیں ہے کہ اس نے ایرانی میزائلوں کو روکنے کی کوشش کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میزائلوں کے راستے بنیادی طور پر عراق سے شروع ہوتے ہیں اور پھر اردن یا شام کے ذریعے اسرائیل تک جاتے ہیں۔
فضائی حدود کے ممالک
مندرجہ ذیل جدول ان ممالک کی فہرست دیتا ہے جن کی فضائی حدود سے ایرانی میزائل گزر سکتے ہیں
نوٹس | فضائی حدود کا کردار | ملک |
---|---|---|
ایران سے اسرائیل جانے والے تمام میزائل عراق کی فضائی حدود سے گزرتے ہیں کیونکہ یہ ایران کا مغربی پڑوسی ہے۔ | ابتدائی راستہ | عراق |
جنوبی اسرائیل کے اہداف کے لیے، میزائل اکثر اردن کی فضائی حدود سے گزرتے ہیں۔ اردن نے اپریل 2024 میں فعال طور پر ڈرونز اور میزائلوں کو روکا۔ | ثانوی راستہ | اردن |
شمالی اسرائیل کے اہداف کے لیے، میزائل شام کی فضائی حدود سے گزر سکتے ہیں۔ شام کی ایران کے ساتھ سیاسی وابستگی کی وجہ سے روکنے کی کوشش کا امکان کم ہے۔ | متبادل راستہ | شام |
راستے میں موجود دفاعی نظام
ایرانی میزائلوں کو اپنے سفر کے دوران متعدد ممالک کے فضائی دفاعی نظاموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں سے کچھ فعال طور پر مداخلت کرتے ہیں، جبکہ دیگر سیاسی یا تکنیکی وجوہات کی بنا پر غیر فعال رہ سکتے ہیں۔ ذیل میں ان ممالک کے دفاعی نظاموں کا جائزہ دیا گیا ہے
عراق
عراق کے پاس محدود لیکن بڑھتی ہوئی فضائی دفاعی صلاحیت ہے۔ اس کا بنیادی نظام پینٹسر-ایس 1 ہے، جو مختصر سے درمیانی فاصلے تک میزائلوں اور بندوقوں کی صلاحیت رکھتا ہے (عراق کا فضائی دفاعی نظام)۔ عراق نئے اینٹی ایئر کرافٹ ہتھیاروں کے حصول کے لیے بات چیت کر رہا ہے تاکہ اپنی فضائی دفاع کو مضبوط کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر موجود فضائی دفاعی نظام، جیسے کہ بغداد کے گرین زون میں یونیئن 3 اڈے پر، ایرانی میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، عراق کی سیاسی پیچیدگیاں، خاص طور پر ایران کے ساتھ اس کے تعلقات، اس بات کو غیر یقینی بناتے ہیں کہ وہ ایرانی میزائلوں کو فعال طور پر روکیں گے۔
شام
شام کی فضائی دفاعی قوت متعدد نظاموں پر مشتمل ہے، جن میں ایس-75 دویِنا، ایس-125، 2کے 12 کُوب، ایس-200، اور 9کے33 اوسا شامل ہیں (شامی فضائی دفاع)۔ کچھ اطلاعات کے مطابق، شام کے پاس ایس-300 نظام بھی ہیں، لیکن یہ نظام پرانے ہیں اور اسرائیلی جوابی اقدامات، جیسے کہ اینٹی ریڈی ایشن میزائلوں اور جیمرز کے سامنے کمزور ہیں۔ شام کی ایران کے ساتھ قریبی سیاسی اور فوجی وابستگی کی وجہ سے، یہ امکان کم ہے کہ وہ ایرانی میزائلوں کو روکنے کی کوشش کرے، خاص طور پر جب وہ اسرائیل کی طرف جا رہے ہوں۔ تاہم، اگر شام کی فضائی حدود میں کوئی دوسرا ملک (جیسے کہ امریکہ یا اسرائیل) مداخلت کرتا ہے، تو شام کے نظام فعال ہو سکتے ہیں۔
اردن
اردن کے پاس مضبوط فضائی دفاعی نظام ہیں، جن میں پیٹریاٹ میزائل سسٹم، اسکائی گارڈ ایئر ڈیفنس سسٹم، اور ہاک ایئر ڈیفنس سسٹم شامل ہیں (اردن کا فضائی دفاع)۔ اپریل 2024 کے حملوں کے دوران، اردن کی رائل اردنی ایئر فورس نے اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والے تقریباً 20 فیصد ایرانی ڈرونز کو کامیابی سے روکا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردن اپنی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے فعال طور پر کام کرتا ہے۔ اردن کی اسٹریٹجک پوزیشن اور مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اس کے اتحاد کی وجہ سے، وہ ایرانی میزائلوں کے خلاف ایک اہم دفاعی رکاوٹ ہے۔
امریکی اور اتحادی افواج
امریکی فوج اور اس کے اتحادی، جیسے کہ برطانیہ اور فرانس، خطے میں فضائی دفاع میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اپریل 2024 کے حملوں کے دوران، امریکی بحری جہازوں نے مشرقی بحیرہ روم میں ایس ایم-3 انٹرسیپٹرز کا استعمال کرتے ہوئے ایرانی بیلسٹک میزائلوں کو روکا (امریکی فضائی دفاع)۔ اس کے علاوہ، اسرائیل میں تھاڈ (ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس) نظام تعینات کیا گیا ہے، جو بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ برطانیہ نے اپنی رائل ایئر فورس کے ٹائفون لڑاکا طیاروں کو رومانیہ سے منتقل کیا تاکہ اسرائیل کی دفاع میں مدد کی جا سکے، جبکہ فرانس نے اپنی بحریہ کو تعینات کیا۔ یہ اتحادی افواج اردن اور بحیرہ روم کے اوپر فضائی حدود میں ایرانی میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
اسرائیل
اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام خطے میں سب سے زیادہ جدید ہے، جو متعدد تہوں پر مشتمل ہے
مقصد | رینج | نظام |
---|---|---|
راکٹس اور آرٹلری شیلز کو روکنا | مختصر فاصلہ (4-70 کلومیٹر) | آئرن ڈوم |
کروز میزائل اور درمیانی رینج کے میزائل | درمیانی فاصلہ (40-300 کلومیٹر) | ڈیوڈز سلنگ |
بیلسٹک میزائلوں کو روکنا | طویل فاصلہ (100-150 کلومیٹر) | ایرو 2 اور ایرو 3 |
یہ نظام اپریل 2024 کے حملوں میں انتہائی موثر ثابت ہوئے، جہاں اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایران کے 300 سے زائد ڈرونز اور میزائلوں میں سے 99 فیصد کو روک لیا (ایرانی حملوں کا نقشہ بنانا)۔ ایرو سسٹم نے کچھ بیلسٹک میزائلوں کو خلا میں ہی روک لیا، جبکہ آئرن ڈوم اور ڈیوڈز سلنگ نے دیگر خطرات سے نمٹا۔
اپریل 2024 کے حملوں کا تناظر
اپریل 2024 میں، ایران نے اسرائیل پر 300 سے زائد ڈرونز اور میزائلوں کا ایک بڑا حملہ کیا، جو کہ شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں تھا۔ اس حملے کے دوران، میزائلوں اور ڈرونز نے عراق اور اردن کی فضائی حدود سے گزر کر اسرائیل تک رسائی حاصل کی۔ اردن نے اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے والے اشیاء کو روکنے کے لیے فعال کردار ادا کیا، جبکہ امریکی اور اسرائیلی جنگی طیاروں نے اردن کی فضائی حدود کا استعمال کیا تاکہ ایرانی پروجیکٹائلز کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ، امریکی بحری جہازوں نے بحیرہ روم میں ایس ایم-3 انٹرسیپٹرز کا استعمال کیا۔ شام کی طرف سے ایرانی میزائلوں کو روکنے کی کوئی واضح رپورٹ نہیں ہے، جو اس کے ایران کے ساتھ اتحاد کی عکاسی کرتی ہے۔
علاقائی پیچیدگیاں
علاقائی اتحاد اور دفاعی صلاحیتوں کی مختلف سطحیں ایرانی میزائلوں کے راستے اور ان کے روکنے کے امکانات کو پیچیدہ بناتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اردن اپنی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے اور اس نے ماضی میں ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو کامیابی سے روکا ہے۔ اس کے برعکس، شام کی ایران کے ساتھ سیاسی وابستگی اسے ایرانی میزائلوں کو روکنے سے روک سکتی ہے۔ عراق کی صورتحال زیادہ پیچیدہ ہے، کیونکہ اس کے ایران کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن وہ امریکی فوجی موجودگی کی میزبانی بھی کرتا ہے، جو ایرانی میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کی موجودگی، خاص طور پر بحیرہ روم اور اسرائیل میں، ایرانی میزائلوں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
نتیجہ
ایران سے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے میزائل عام طور پر عراق اور پھر اردن یا شام کی فضائی حدود سے گزرتے ہیں، جہاں انہیں متعدد دفاعی نظاموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عراق میں پینٹسر-ایس 1 اور امریکی اڈوں پر موجود نظام، اردن میں پیٹریاٹ، اسکائی گارڈ، اور ہاک نظام، اور اسرائیل میں آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ، اور ایرو نظام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، امریکی بحری جہازوں پر ایس ایم-3 انٹرسیپٹرز اور خطے میں دیگر اتحادی افواج ایرانی میزائلوں کے لیے اضافی رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔ تاہم، شام کے دفاعی نظاموں کا کردار غیر یقینی ہے کیونکہ اس کی ایران کے ساتھ سیاسی وابستگی ہے۔ یہ پیچیدہ دفاعی منظر نامہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایرانی میزائلوں کے لیے اسرائیل تک کامیابی سے پہنچنا ایک مشکل کام ہے۔
Key Citations
- April 2024 Iranian strikes against Israel – Wikipedia
- Mapping the wide-scale Iranian drone and missile attacks – The Washington Post
- Insight Into Air Defense Systems of Jordan – MilitarySphere.com
- Iraq to purchase modern air defense systems amid heightened regional tensions – Army Recognition
- Syrian Air Defense Force – Wikipedia
- U.S. beefing up air defenses at base in Jordan – CBS News