اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Wed 6-August-2025AD 11 Safar 1447AH

امام حسینؑ کا مکہ سے کربلا تک درد بھرا سفر

تعارف

کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور دلخراش واقعہ ہے جو 10 محرم 61 ہجری (10 اکتوبر 680 عیسوی) کو کربلا، موجودہ عراق میں پیش آیا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، امام حسین علیہ السلام، ان کے اہل خانہ اور ایک چھوٹے سے گروہ کے ساتھیوں کو اموی خلیفہ یزید اول کی فوجوں نے شہید کر دیا۔ سنی نقطہ نظر سے، یہ ایک عظیم المیہ ہے جہاں پیغمبر کے خاندان کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ اگرچہ شیعہ اس واقعے کی الہیاتی اہمیت پر زور دیتے ہیں، سنی بھی امام حسین کی قربانی کو عزت دیتے ہیں اور یزید کے اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔

شاعری

یہ اشعار کربلا کی عظمت اور امام حسین کے عزم کو بیان کرتے ہیں۔

کربلا میں اصل مسئلہ

امام حسین نے یزید کو بیعت دینے سے انکار کیا کیونکہ وہ اسے ایک نااہل اور بدعنوان حکمران سمجھتے تھے۔ یزید کی خلافت اس کے والد معاویہ کی طرف سے نامزدگی کے ذریعے ہوئی، جو اسلامی اصولوں کے مطابق شوریٰ (مشاورت) کے بغیر تھی۔ امام حسین کا ماننا تھا کہ یزید کی حکمرانی اسلام کی حقیقی تعلیمات کے منافی ہے۔ ان کا موقف صرف سیاسی بغاوت نہیں بلکہ دین کی حفاظت اور انصاف کے قیام کے لیے ایک اخلاقی اور مذہبی فریضہ تھا۔

امام حسین نے اپنی جدوجہد کو ایک اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کیا، جیسا کہ سنی ذرائع جیسے البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا مقصد امت کو ظلم اور بدعنوانی سے بچانا تھا۔

کربلا کا سفر

امام حسین کو کوفہ کے لوگوں نے خطوط لکھ کر دعوت دی کہ وہ یزید کے خلاف ان کی قیادت کریں۔ انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا۔ مسلم نے اطلاع دی کہ لوگ حمایت کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، یزید نے عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا، جس نے بغاوت کو دبا دیا اور مسلم بن عقیل کو 9 ذی الحجہ 60 ہجری کو شہید کر دیا۔ اس دھوکہ دہی کے باوجود، امام حسین نے اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ 8 ذی الحجہ 60 ہجری کو مکہ سے روانہ ہوئے اور 2 محرم 61 ہجری کو کربلا پہنچے، جہاں انہیں یزید کی فوجوں نے روک لیا۔

مزید پڑھیں:  دس محرم سن 61 ہجری: صبح فجر سے امام حسین کی شہادت تک کا درد بھرا سفر

شاعری

کربلا کے 72 شہداء کے نام

امام حسین کے 72 ساتھیوں میں ان کے خاندان کے افراد اور وفادار حامی شامل تھے۔ ذیل میں کچھ اہم ساتھیوں کے نام اور ان کا امام حسین سے تعلق دیا گیا ہے

کربلا کے 72 شہداء کے نام: امام حسین بن علی، علی الاکبر بن حسین بن علی، عبداللہ (علی الاصغر) بن حسین بن علی، عبداللہ بن علی، ابوالفضل العباس بن علی، جعفر بن علی، عثمان بن علی، محمد بن علی، ابی بکر بن الحسن بن علی، عبداللہ بن الحسن بن علی، قاسم بن الحسن بن علی، عون بن عبداللہ بن جعفر الطائر، محمد بن عبداللہ بن جعفر الطائر، جعفر بن عقیل، عبداللہ بن مسلم بن عقیل، ابو عبداللہ بن مسلم بن عقیل، محمد بن ابو سعید بن عقیل، سلیمان (امام حسین کا غلام)، قارب (امام حسین کا غلام)، منجہ (امام حسین کا غلام)، مسلم بن اوساجہ الاسدی، سعید بن عبداللہ الحنفی، بشر بن عمرو الخذرمی، یزید بن الحسین (قرآن کا قاری)، عمران بن الکلب الانصاری، نعیم بن العجلان الانصاری، زہیر بن القین البجلی، عمرو بن قرظہ الانصاری، حبیب بن مظاہر الاسدی، حُر بن یزید الریاحی، عبداللہ بن العمیر الکلبی، نافع بن الحلال الجملی المرادی، انس بن کاهل بن الحرث الاسدی، قیس بن المصحر السعداوی، عبداللہ بن عروہ بن الحراق الغفاری، عبدالرحمن بن عروہ بن الحراق الغفاری، شبیب بن عبداللہ نہشلی، جون (ابو ذر الغفاری کا غلام)، حجاج بن زید سعدي، قاسط بن زہیر الثعلبي، کرش (مقسط) بن زہیر الثعلبي، کنانہ بن عتیق، ضرغام بن مالک، جوین بن مالک الذبائی، زید بن ثبيت القيسي، عبداللہ بن زید بن ثبيت القيسي، عبيداللہ بن زید بن ثبيت القيسي، عامر بن مسلم، قنب بن عمرو النمری، سلیم (عامر بن مسلم کا غلام)، سیف بن مالک، زہیر بن باشي الخثعمی، زید بن معقل الجوافي، حجاج بن مسروق الجوافي، مسعود بن حجاج، مسعود بن حجاج کا بیٹا، مجمع بن عبداللہ العزی، عمار بن حسن بن شریب الطائي، حیان بن حارث السلمانی الازدی، جندب بن حجير الخولانی، عمر بن خالد السعداوی، سعید (عمر بن خالد کا غلام)، یزید بن زياد بن مزاحي الکندی، زاہر (عامر بن حموق الخزاعی کا غلام)، جبلہ بن علی الشيباني، سلیم (بنی مدینہ الکلبی کا غلام)، اسلم بن ختير الازدی، زہیر بن سلیم الازدی، قاسم بن حبیب الازدی، عمر بن العذوث الحذرمی، ابو ثمامہ (عمر بن عبداللہ السعدی)، ہنزلہ بن اسعد الشامی۔

مزید پڑھیں:  حضرت زینب اور کربلا: ایمان، حوصلے اور شہادتِ امام حسین کی داستان
شہادت کا دنامام حسین سے تعلقنام
دس محرمبیٹاعلی اکبر بن حسین
دس محرمبیٹا (شیر خوار)علی اصغر بن حسین
دس محرمبھائیعباس بن علی
دس محرمبھائیجعفر بن علی
دس محرمبھائیعبداللہ بن علی
دس محرمبھتیجاقاسم بن حسن
دس محرمساتھیحبیب بن مظاہر
دس محرمساتھیزہیر بن القین

یہ فہرست مکمل نہیں ہے، لیکن یہ اہم شخصیات کو نمایاں کرتی ہے۔ مکمل فہرست کے لیے، سنی ذرائع جیسے البدایہ والنہایہ یا دیگر تاریخی کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

جنگ کے واقعات

کربلا کے واقعات کی ٹائم لائن درج ذیل ہے

  • دو محرم 61 ہجری: امام حسین کربلا پہنچے اور اپنا کیمپ قائم کیا۔
  • تین محرم: عمر بن سعد 4,000 فوجیوں کے ساتھ کربلا پہنچا۔
  • سات محرم: دشمن نے پانی کی سپلائی بند کر دی، جس سے امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
  • نو محرم: شمر بن ذی الجوشن کربلا پہنچا اور جنگ کا اعلان کیا گیا۔ امام حسین نے ایک رات کی مہلت مانگی۔
  • دس محرم (عاشورہ): جنگ شروع ہوئی۔ امام حسین اور ان کے 72 ساتھیوں نے 4,000 سے 30,000 دشمن فوجیوں کے خلاف بہادری سے لڑائی کی لیکن سب شہید ہو گئے۔ امام حسین کو سینان بن انس نے شمر کے حکم پر شہید کیا۔ ان کے جسم پر 34 تلوار اور 33 نیزوں کے زخم تھے۔

خواجہ غریب نواز

اردو ترجمہ

یزید کے دربار میں پیشی

جنگ کے بعد، زندہ بچ جانے والوں، جن میں حضرت زینب، امام زین العابدین، اور دیگر خواتین و بچوں کو شامل تھا، کو پہلے کوفہ اور پھر دمشق میں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ 11 محرم کو قیدیوں کو کوفہ لے جایا گیا، اور 19 محرم کو وہ دمشق کی طرف روانہ ہوئے، جہاں وہ یکم صفر کو پہنچے۔

مزید پڑھیں:  بحیرہ احمر میں حوثیوں کا بحری جہاز پر حملہ، ایٹرنٹی سی کو سمندر میں غرق کرنے کی ویڈیو جاری

حضرت زینب نے یزید کے دربار میں ایک طاقتور خطبہ دیا، جس میں انہوں نے یزید کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی اور اہل بیت کی عظمت کو اجاگر کیا۔ ان کا خطبہ، جو کتاب بلاغت الننساء میں درج ہے، یزید کی ناانصافیوں کو بے نقاب کرنے کا ایک تاریخی لمحہ تھا۔ اسی طرح، امام زین العابدین نے بھی یزید کے دربار میں خطبہ دیا، جس میں انہوں نے اپنے خاندان کی حقانیت اور یزید کے ظلم کو واضح کیا۔ ان کے خطبات نے نہ صرف یزید کی عدالت کو متاثر کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں حق کی آواز بلند کی۔

علامہ اقبال کی امام حسینؑ سے عقیدت

سر کٹنے والے اور ان کے قاتل

امام حسین کا سر سینان بن انس نے شمر بن ذی الجوشن کے حکم پر کاٹا۔ دیگر ساتھیوں کے سروں کو بھی کاٹ کر کوفہ اور پھر دمشق لے جایا گیا۔ ذیل میں کچھ اہم شہداء اور ان کے قاتلین کی فہرست دی گئی ہے

قاتلشہدا
سینان بن انس (شمر کے حکم پر)امام حسین بن علی
مرہ بن منقذ بن نعمان العبدیعلی اکبر بن حسین
حرملہ بن کاہل الاسدیعلی اصغر بن حسین
یزید بن رقاد الحیتی اور حکیم بن طفیلعباس بن علی
ہانی بن ثبیت الحضرمیجعفر بن علی

یہ سروں کو کاٹنے اور دمشق لے جانے کا عمل دشمن کی طرف سے فتح کی علامت کے طور پر کیا گیا، لیکن یہ عمل اسلامی تاریخ میں ایک شرمناک باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

اختتام

کربلا کا واقعہ ہمیں قربانی، انصاف، اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ امام حسین کی جدوجہد ہر دور اور ہر جگہ کے لیے ایک مثال ہے کہ حق کے لیے کھڑا ہونا کتنا ضروری ہے۔ سنی روایات کے مطابق، یہ واقعہ ایک تاریخی المیہ ہے جو امت کے لیے ایک سبق ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی اختیار نہ کی جائے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں

یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق کی راہ میں قربانی دینے والوں کی یاد ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔

اگر اس آرٹیکل میں کسی غلطی کا امکان ہو تو آپ کمنٹ میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *