اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Wed 6-August-2025AD 11 Safar 1447AH

بحیرہ احمر میں حوثیوں کا بحری جہاز پر حملہ، میجک سیز کو سمندر میں غرق کرنے کی ویڈیو جاری

تعارف

حال ہی میں، یمن کے حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں ایک بحری جہاز ‘میجک سیز’ پر حملہ کیا اور اسے غرق کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حوثیوں نے اس حملے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں جہاز کو غرق ہوتے دکھایا گیا ہے۔ یہ واقعہ بحیرہ احمر میں بحری سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور عالمی تجارت پر بھی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ یہ حملہ نومبر 2023 سے جاری حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملوں کی ایک کڑی ہے، جو ان کے بقول فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے کیے جا رہے ہیں۔

واقعہ کی تفصیلات

یہ حملہ 6 جولائی 2025 کو ہوا، جب ‘میجک سیز’ نامی جہاز بحیرہ احمر میں یمن کے شہر حدیدہ کے جنوب مغرب میں تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ‘میجک سیز’ ایک بلک کیریئر جہاز ہے، جو لائبیریا کا جھنڈا لے کر جا رہا تھا اور یونانی کمپنی، ممکنہ طور پر اسٹیم شپنگ یا آل سیز میرین، کے زیر انتظام تھا۔ جہاز چین سے ترکی کے لیے لوہا اور کھاد لے کر جا رہا تھا۔

حوثیوں نے حملے کے لیے ڈرونز، میزائلوں، آر پی جیز، چھوٹے ہتھیاروں اور دو بغیر پائلٹ سطحی جہازوں کا استعمال کیا۔ یہ حملہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا، جس میں حوثیوں نے پہلے جہاز پر چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی اور پھر میزائلوں اور ڈرونز سے اسے نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے، جہاز کے 22 عملے کے ارکان، جن میں ایک رومانیہ، ایک ویتنامی اور 20 فلپائنی شہری شامل تھے، سب کو بچا لیا گیا۔ انہیں قریبی جہاز ‘سیفین پرزم’ نے بچایا اور وہ 7 جولائی 2025 کو جبوتی میں بحفاظت پہنچ گئے۔ یورپی یونین کے نیول فورس آپریشن اٹلانٹا نے بچاؤ آپریشن کی نگرانی کی اور جبوتی کوسٹ گارڈ کے تعاون سے عملے کی محفوظ منتقلی کو یقینی بنایا۔ (یروشلم پوسٹ)

حوثیوں کے دعوے اور ویڈیو

حوثیوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور ایک ویڈیو جاری کی، جس میں حملے کی فوٹیج اور جہاز کے مبینہ طور پر غرق ہونے کے مناظر شامل ہیں۔ ویڈیو میں مسلح حوثیوں کو جہاز پر سوار ہوتے اور ریڈیو کے ذریعے جہاز کے کپتان کو فوری طور پر جہاز روکنے کا حکم دیتے دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے ریڈیو پر کہا: “کپتان، فوری طور پر جہاز روکیں! آپ کے جہاز اور عملے کی حفاظت کے لیے! ورنہ، آپ ہماری ذمہ داری پر ہوں گے۔” ویڈیو میں جہاز کو دھوئیں اور شعلوں میں گھرا دکھایا گیا ہے، جو مبینہ طور پر غرق ہو جاتا ہے۔ تاہم، جہاز کے غرق ہونے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہوئی ہے، اور جہاز کی انتظامیہ نے بھی اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔ ماضی میں بھی حوثیوں نے جہازوں کے غرق ہونے کے دعوے قبل از وقت کیے ہیں، جو بعد میں درست ثابت نہیں ہوئے۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل کی غزہ کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلا کرنے کی آمادگی

حوثیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ جہاز اسرائیل سے منسلک تھا، لیکن اطلاعات کے مطابق ‘میجک سیز’ کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جہاز چین سے ترکی کے لیے لوہا اور کھاد لے کر جا رہا تھا، اور اس کا کوئی سیاسی یا فوجی تعلق نہیں تھا۔ (وائی ​​نیٹ نیوز)



تصدیق اور ردعمل

جہاز کے غرق ہونے کی آزادانہ تصدیق ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ جہاز کی انتظامیہ، جو ممکنہ طور پر یونانی کمپنی اسٹیم شپنگ یا آل سیز میرین ہے، نے کہا کہ وہ غرق ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ میری ٹائم سیکیورٹی فرم ایمبری نے رپورٹ کیا کہ یہ حملہ حدیدہ کے قریب ایک کثیر الجہتی حملہ تھا، جو چھوٹے ہتھیاروں سے شروع ہوا اور پھر بغیر پائلٹ کے سطحی جہازوں اور میزائلوں تک بڑھا۔

یہ حملہ دسمبر 2024 کے بعد بحیرہ احمر کے جنوبی حصے میں کسی مرچنٹ جہاز پر پہلا بڑا حملہ تھا۔ یہ واقعہ نومبر 2023 سے حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے 100 سے زائد حملوں کا حصہ ہے، جن میں سے تین جہازوں کے غرق ہونے اور آٹھ ملاحوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ ان حملوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والی عالمی تجارت کو شدید متاثر کیا ہے، جو سالانہ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی مالیت کی ہوتی ہے۔

پس منظر اور اثرات

حوثی باغیوں نے نومبر 2023 سے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے شروع کیے ہیں، جو ان کے بقول فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے منسلک جہازوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ غزہ پر حملے بند ہوں اور ناکہ بندی ختم ہو۔ تاہم، ‘میجک سیز’ جیسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات غیر متعلقہ جہازوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان حملوں نے بحیرہ احمر کے راستے سے گزرنے والی عالمی تجارت کو شدید متاثر کیا ہے، جو عالمی سپلائی چین کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ راستہ یورپ، ایشیا، اور افریقہ کے درمیان تجارت کے لیے کلیدی ہے، اور اس کی بندش یا خطرات سے عالمی معیشت پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔



اس کے علاوہ، ان حملوں نے بحری سلامتی کے حوالے سے عالمی تشویش کو بڑھایا ہے۔ کئی ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں، جیسے کہ یورپی یونین کے نیول فورسز، اس علاقے میں بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، لیکن حوثیوں کے حملوں کی شدت اور تعداد نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ (جی کیپٹن)

اختتام

‘میجک سیز’ پر حملہ بحیرہ احمر میں بحری سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس طرح کے حملے نہ صرف بحری جہازوں اور ان کے عملے کے لیے خطرہ ہیں بلکہ عالمی تجارت اور معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ جہاز کے غرق ہونے کی تصدیق نہ ہونے کے باوجود، حوثیوں کی ویڈیو اور ان کے دعووں نے علاقائی اور عالمی سطح پر تشویش کو بڑھا دیا ہے۔ عالمی برادری کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بحیرہ احمر میں بحری راستوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  امام حسین کی شہادت کے بعد اہل بیت سے سلوک ۔۔۔

FAQs on the Houthi Attack on the ‘Magic Seas’ in the Red Sea

What happened to the ‘Magic Seas’ in the Red Sea?

On July 6, 2025, Houthi rebels attacked the ‘Magic Seas,’ a Liberian-flagged cargo ship, in the Red Sea, 100 km southwest of Hodeidah, Yemen. The Houthis claimed they sank the vessel and released a video, but no independent confirmation of the sinking exists. The attack involved drones, missiles, and unmanned surface vessels. All 22 crew members were safely rescued and taken to Djibouti. The ship was carrying iron and fertilizer from China to Turkey.

Who attacked the ‘Magic Seas’?

The attack was executed by Yemen’s Houthi rebels, a group controlling parts of Yemen. They have been targeting ships in the Red Sea since November 2023, claiming solidarity with Palestinians and targeting vessels they believe are linked to Israel. The ‘Magic Seas,’ however, had no known Israeli connections, suggesting the Houthis may target ships indiscriminately. The attack used a combination of drones, missiles, RPGs, and small arms, showcasing their advanced capabilities.

Was the ‘Magic Seas’ actually sunk?

The Houthis released a video claiming the ‘Magic Seas’ had sunk, showing flames and smoke. However, no independent sources, including the ship’s Greek management company, have confirmed the sinking. Past Houthi claims of sinking ships have sometimes been unverified or exaggerated. Maritime security firm Ambrey reported the attack but could not confirm the ship’s fate. The lack of confirmation raises doubts about the Houthi claim, pending further evidence or investigation.

Were there any casualties in the attack?

No casualties were reported in the ‘Magic Seas’ attack. All 22 crew members, comprising one Romanian, one Vietnamese, and 20 Filipinos, were safely rescued. They were evacuated by a nearby vessel, the ‘Sefin Prism,’ and safely transported to Djibouti on July 7, 2025. The European Union’s Naval Force Operation Atalanta oversaw the rescue, coordinating with the Djibouti Coast Guard to ensure the crew’s safety and well-being after the attack.

Why do Houthis target ships in the Red Sea?

The Houthis claim their attacks on Red Sea shipping are in solidarity with Palestinians, targeting vessels linked to Israel to pressure for an end to Gaza operations. Since November 2023, they have conducted over 100 attacks, disrupting global trade. However, many targeted ships, like the ‘Magic Seas,’ have no Israeli ties, indicating broader motives or misidentification. The Red Sea is a critical trade route, making these attacks impactful on global commerce.

مزید پڑھیں:  Israeli-Palestinian conflict: Two-state solution, Historical background, and Current situation in Gaza - اسرائیل اور فلسطین کا تنازع: دو ریاستی حل، تاریخی پس منظر اور غزہ کی حالیہ صورتحال

What was the ‘Magic Seas’ carrying?

The ‘Magic Seas’ was a bulk carrier transporting iron and fertilizer from China to Turkey. Operated under a Liberian flag and managed by a Greek company (possibly Steam Shipping or All Seas Marine), the ship was not carrying military or sensitive cargo. Its cargo was standard commercial goods, highlighting that Houthi attacks often affect neutral merchant vessels, disrupting global supply chains without direct political or military connections to their stated targets.

How did the crew escape the attack?

The 22 crew members of the ‘Magic Seas’ were rescued by a nearby vessel, the ‘Sefin Prism,’ after the Houthi attack on July 6, 2025. The European Union’s Naval Force Operation Atalanta monitored the operation, ensuring safe evacuation. The crew was transported to Djibouti, arriving on July 7, 2025. The Djibouti Coast Guard assisted in the process, ensuring all crew members, including one Romanian, one Vietnamese, and 20 Filipinos, were unharmed.

What is the significance of the Red Sea for global trade?

The Red Sea is a vital artery for global trade, handling about $1 trillion in commerce annually. It connects Europe, Asia, and Africa via the Suez Canal, facilitating 10-15% of global maritime trade. Houthi attacks since November 2023 have disrupted this route, forcing ships to reroute around Africa, increasing costs and delays. The ‘Magic Seas’ attack underscores the ongoing threat to this critical trade corridor, impacting global supply chains.

How has the international community responded?

The international community, including the EU Naval Force Operation Atalanta, has increased patrols in the Red Sea to protect merchant vessels. The rescue of the ‘Magic Seas’ crew was supported by EU forces and Djibouti’s Coast Guard. Several countries have condemned Houthi attacks, and coalitions like Operation Prosperity Guardian aim to secure the region. However, the persistent attacks highlight the challenge of ensuring maritime security against Houthi tactics.

What are the broader implications of this attack?

The attack on the ‘Magic Seas’ highlights the growing threat to maritime security in the Red Sea, disrupting a key global trade route. It raises concerns about the safety of merchant vessels and crews, increases shipping costs due to rerouting, and impacts global supply chains. The Houthis’ actions, even if unverified, escalate tensions in the region, prompting calls for stronger international measures to deter further attacks and protect critical trade routes.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *