حضرت عثمان غنی: شہادت اور اسلام کے لیے خدمات
تعارف
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، جنہیں عثمان غنی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اسلام کے تیسرے خلیفہ تھے جنہوں نے 644 سے 656 عیسوی تک خلافت کی۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی صحابی، دو بیٹیوں (رقیہ اور ام کلثوم) کے شوہر، اور امت کے لیے ایک عظیم رہنما تھے۔ ان کی شرم و حیا، سخاوت، اور تقویٰ نے انہیں امت میں ایک ممتاز مقام دلایا۔ تاہم، ان کا دور خلافت داخلی تنازعات سے بھی دوچار رہا، جو بالآخر ان کی شہادت کا باعث بنا۔ یہ مضمون ان کی اسلام کے لیے خدمات اور شہادت کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے۔
اسلام کے لیے خدمات
قرآن مجید کی معیاری تدوین
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سب سے عظیم خدمت قرآن مجید کی معیاری تدوین ہے۔ ان کے دور میں، مختلف علاقوں میں قرآنی آیات کی تلاوت میں اختلافات پیدا ہو رہے تھے، جو امت کے اتحاد کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے، حضرت عثمان نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تیار کردہ نقل، جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، کی بنیاد پر ایک معیاری نسخہ تیار کیا۔ یہ نسخہ اسلامی سلطنت کے مختلف شہروں میں تقسیم کیا گیا، اور دیگر نسخوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ قرآن کی وحدت برقرار رہے۔ یہ معیاری نسخہ، جسے “مصحف عثمانی” کہا جاتا ہے، آج بھی دنیا بھر میں استعمال ہوتا ہے (عثمان – ویکیپیڈیا)۔
نوٹ: شیعہ عقیدے کے مطابق، قرآن مجید کی تدوین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مکمل ہوئی تھی، لیکن سنی روایات حضرت عثمان کو اس کا سہرا دیتی ہیں۔
خلافت کی توسیع
حضرت عثمان کے دور میں اسلامی خلافت نے نمایاں ترقی کی۔ ان کے عہد میں فتوحات نے ایران، آرمینیا، شمالی افریقہ (مغرب)، اور سندھ (موجودہ پاکستان) تک اسلامی سلطنت کی سرحدیں پھیلائیں۔ 650 عیسوی میں ایران کے مزید علاقے فتح ہوئے، اور 651 عیسوی تک خراسان تک رسائی حاصل ہوئی۔ انہوں نے بالوچستان کو دوبارہ فتح کیا اور ممکنہ طور پر الاندلس (ہسپانیہ) کے ساحلی علاقوں تک فتوحات کیں، اگرچہ اس بارے میں تاریخی شواہد واضح نہیں ہیں (عثمان – ویکیپیڈیا)۔
ایک اہم کارنامہ پہلی مسلم بحریہ کا قیام تھا، جس کی سربراہی معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے کی۔ اس بحریہ نے 655 عیسوی میں “جنگ السار” میں بازنطینی بحریہ کو شکست دی، جس سے قبرص اور رہوڈس کی فتح ممکن ہوئی۔ یہ فتوحات بعد میں اسلامی سلطنتوں، جیسے کہ صقلیہ اور کریٹ کی امارات، کے قیام کی راہ ہموار کرتی رہیں۔
انتظامی اصلاحات
حضرت عثمان نے خلافت کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے کئی اصلاحات متعارف کروائیں
- عوامی وظائف میں اضافہ: انہوں نے خلیفہ بنتے ہی عوامی وظائف میں 25 فیصد اضافہ کیا، جس سے معاشی خوشحالی بڑھی۔
- زمین کی خرید و فروخت: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں فتح شدہ علاقوں میں زمین کی خرید و فروخت پر پابندی تھی، جسے حضرت عثمان نے ختم کیا، جس سے تجارت کو فروغ ملا۔
- خزانے سے قرضے: انہوں نے عوام کو بیت المال سے قرضے لینے کی اجازت دی، جو معاشی ترقی کا باعث بنی۔
- ہجری کیلنڈر اور دیوان: حضرت عمر کے دور میں، حضرت عثمان نے ہجری کیلنڈر متعارف کرانے اور دولت کے ریکارڈ رکھنے کے نظام (دیوان) کے قیام کی تجویز پیش کی (سیرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ | اسلامک فائنڈر)۔
ان اصلاحات نے اسلامی سلطنت کو ایک منظم اور خوشحال ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سخاوت اور خیرات
حضرت عثمان کی سخاوت کے قصے اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ انہوں نے اپنا ذاتی مال اسلام کی خدمت میں پیش کیا
- رومہ کا کنواں: انہوں نے 20,000 درہم میں رومہ کا کنواں خرید کر امت کے لیے وقف کیا تاکہ لوگوں کو مفت پانی مل سکے۔
- مسجد نبوی کی توسیع: انہوں نے 20,000 یا 25,000 درہم میں زمین خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کی۔
- غزوہ تبوک کی امداد: انہوں نے غزوہ تبوک کے لیے مسلم فوج کو بھاری مالی امداد فراہم کی، جس کی وجہ سے انہیں “غنی” کا لقب ملا (سیرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ | اسلامک فائنڈر)۔
ان کی یہ خیرات ان کے ایمان اور امت سے محبت کی عکاسی کرتی ہیں۔
حضرت عثمان کی شہادت
بغاوت کے اسباب
حضرت عثمان کے دور کے آخر میں، ان پر اپنے اموی رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے اور بدعنوانی کے الزامات لگے۔ اگرچہ یہ الزامات متنازع ہیں، لیکن انہوں نے مصر، کوفہ، اور بصرہ کے کچھ لوگوں میں ناراضی پیدا کی۔ بعض ذرائع کے مطابق، عبداللہ بن سبأ نامی شخص نے اس بغاوت کو ہوا دی، لیکن اس کردار پر مورخین میں اختلاف ہے (عثمان: ایک غلط قتل کا شکار | عرب نیوز)۔
مصر سے آئے ہوئے باغیوں نے 655 عیسوی میں مدینہ کا رخ کیا اور اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ ابتدائی طور پر، حضرت عثمان نے ان کے مطالبات کو تسلیم کیا، لیکن ایک خط (جو مبینہ طور پر مروان بن الحکم نے جاری کیا تھا) نے باغیوں کو مشتعل کر دیا، جس میں ان کی سزا کا حکم تھا (خلیفہ عثمان کا قتل | آج کی تاریخ)۔
محاصرہ اور شہادت
باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا 40 دن تک محاصرہ کیا، انہیں مسجد میں نماز پڑھنے اور پانی تک رسائی سے روک دیا۔ ایک مظاہرین، نیار بن ایاد الاسلمی، کی ہلاکت نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ حضرت عثمان نے اپنے حامیوں کو لڑائی سے روکا اور تشدد سے گریز کیا۔
تاریخ میں 17 جون 656 عیسوی (18 ذوالحجہ 35 ہجری) کو باغی ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ کلیدی افراد میں شامل تھے
- محمد بن ابی بکر: انہوں نے حضرت عثمان کی داڑھی پکڑی اور ان کے سر پر تلوار سے وار کیا۔
- کنانہ بن بشر التجیبی: انہوں نے حضرت عثمان کے کان کے نیچے تلوار یا دھاتی چھڑ سے حملہ کیا۔
- سوڈان بن ہمرن: انہوں نے زخمی حالت میں حضرت عثمان کو قتل کیا۔
- عمرو بن الحمق: انہوں نے حضرت عثمان کے سینے پر بیٹھ کر متعدد وار کیے (عثمان کا قتل – ویکیپیڈیا)۔
حضرت عثمان اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کی اہلیہ، نائلہ رضی اللہ عنہا، نے ان کی حفاظت کی کوشش کی لیکن ان کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔ حضرت عثمان کو مدینہ کے البقیع قبرستان میں دفن کیا گیا (سیرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ | اسلامک فائنڈر)۔
شہادت کے اثرات
حضرت عثمان کی شہادت نے امت مسلمہ میں گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس واقعے نے پہلی فتنہ (مسلمانوں کی پہلی خانہ جنگی) کو جنم دیا، جس نے امت کو شیعہ اور سنی فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد، معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت عثمان کے قتل کا بدلہ مانگا، جس سے صفین کی جنگ ہوئی (عثمان بن عفان | سوانح عمری، کامیابیاں، اور قتل | برٹانیکا)۔
یہ فتنہ اسلامی تاریخ کا ایک دردناک باب ہے، جس نے امت کے اتحاد کو چیلنج کیا۔
نتیجہ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ایک عظیم خلیفہ، صحابی، اور سخاوت کے پیکر تھے۔ ان کی خدمات، خصوصاً قرآن کی تدوین اور خلافت کی توسیع، آج بھی امت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان کی شہادت ایک المناک واقعہ تھا جس نے امت کو ایک مشکل دور سے دوچار کیا، لیکن ان کا صبر، تقویٰ، اور ایمان آج بھی ہمارے لیے ایک عظیم مثال ہے۔
اس موضوع پر مزید تفصیلات کے لیے، معتبر تاریخی کتب اور ذرائع کا مطالعہ کریں تاکہ مختلف نقطہ ہائے نظر کو سمجھا جا سکے۔