اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Wed 6-August-2025AD 11 Safar 1447AH

ملک شام میں دروز اور شامی فوج کی موجودہ صورتحال

شام میں دروز اور شامی فوج کی موجودہ صورتحال

شام کی صورتحال

شام کے جنوبی صوبے سویدا میں دروز برادری اور شامی فوج کے درمیان جاری تنازع نے علاقے کو ایک بار پھر تشدد کی لپیٹ میں لا دیا ہے۔ یہ جھڑپیں 13 جولائی 2025 کو ایک دروز تاجر کے اغوا سے شروع ہوئیں، جو بدو قبائل کے ساتھ تصادم کا باعث بنیں۔ شامی فوج کی مداخلت کے باوجود، دروز ملیشیا نے فوج کی موجودگی کو مسترد کر دیا، اور اسرائیل نے دروز کی حمایت میں فضائی حملے کیے۔ شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق، 18 جولائی 2025 تک تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 300 دروز اور 257 شامی فوجی شامل ہیں۔ سویدا میں عمارتیں، دکانیں، اور دیگر انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔

تنازع کی وجوہات

یہ تنازع دروز اور بدو قبائل کے درمیان ایک تاجر کے اغوا سے شروع ہوا، جو جلد ہی مسلح تصادم میں بدل گیا۔ دروز برادری، جو اپنی خودمختاری کی حفاظت کے لیے جانی جاتی ہے، شامی فوج کے ساتھ انضمام کے خلاف ہے۔ اسرائیل کی مداخلت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا، کیونکہ اس نے شامی فوج کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔

اسرائیل اور عالمی کردار

اسرائیل نے دروز کی حفاظت کے نام پر شامی فوج پر حملے کیے، لیکن اس کی کارروائیاں نئی شامی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش سے بھی منسلک ہیں۔ روس، ترکی، اور لبنان نے ان حملوں کی مذمت کی ہے، جبکہ امریکہ نے سیز فائر کے لیے کوششیں کی ہیں۔ یہ تنازع شام کی نازک صورتحال کو اجاگر کرتا ہے، جہاں مختلف گروہوں کے درمیان عدم اعتماد اب بھی موجود ہے۔

تفصیلی جائزہ

شام کا پس منظر

شام مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ملک ہے، جو اپنی قدیم تہذیبوں اور جغرافیائی اہمیت کے لیے مشہور ہے۔ اس کی سرحدیں لبنان، اسرائیل، اردن، عراق، اور ترکی سے ملتی ہیں۔ 1971 سے اسد خاندان نے شام پر حکومت کی، پہلے حافظ الاسد اور پھر ان کے بیٹے بشار الاسد نے۔ 2011 میں، بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوا، جو جلد ہی خانہ جنگی میں بدل گیا۔ اس جنگ نے لاکھوں افراد کو ہلاک اور کروڑوں کو بے گھر کر دیا۔ دسمبر 2024 میں، باغی گروہ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اور احمد الشرع (پہلے ابو محمد الجولانی کے نام سے مشہور) نے عبوری صدر کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ یہ نئی حکومت ابھی استحکام کی کوشش کر رہی ہے، لیکن مختلف گروہوں کے درمیان تناؤ اور تشدد جاری ہے۔

دروز' کون ہیں اور اسرائیل اس مذہبی اقلیت کی 'حفاظت' کے لیے شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟

دروز کون ہیں؟

دروز ایک عربی مذہبی اقلیت ہیں جو بنیادی طور پر شام، لبنان، اور اسرائیل میں رہتے ہیں۔ ان کا مذہب 11ویں صدی میں مصر میں اسماعیلی شیعہ اسلام سے نکلا، لیکن اس میں عیسائیت، ہندو مت، اور قدیم یونانی فلسفوں کے عناصر شامل ہیں۔ دروز اپنی برادری کی وفاداری اور خودمختاری کے لیے مشہور ہیں۔ وہ اپنی مذہبی رسومات کو خفیہ رکھتے ہیں اور نہ تو اپنے مذہب میں نئے لوگوں کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مذاہب میں تبدیل ہوتے ہیں۔ شام میں، دروز کی آبادی تقریباً 3.2 فیصد ہے، جو زیادہ تر سویدا صوبے اور دمشق کے جنوبی مضافات میں رہتی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران، دروز نے اپنے علاقوں میں نسبتاً خودمختاری برقرار رکھی اور اسد حکومت سے تحفظ حاصل کیا۔ تاہم، نئی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہیں، کیونکہ وہ احمد الشرع کے سابقہ جہادی پس منظر پر عدم اعتماد رکھتے ہیں۔

جولائی 2025 کی جھڑپوں کی تفصیل

13 جولائی 2025 کو، سویدا میں ایک دروز تاجر کے اغوا نے دروز ملیشیا اور سنی بدو قبائل کے درمیان جھڑپیں شروع کر دیں۔ یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب شامی فوج نے امن قائم کرنے کے لیے مداخلت کی، لیکن دروز ملیشیا نے فوج کی موجودگی کو مسترد کر دیا۔ 15 جولائی کو، اسرائیل نے شامی فوج پر فضائی حملے شروع کیے، جن کا مقصد دروز کی حفاظت اور شامی حکومت کی مخالفت کرنا تھا۔ 16 جولائی کو، اسرائیل نے دمشق میں وزارت دفاع اور صدارتی محل کے قریب حملے کیے، جو اسد حکومت کے خاتمے کے بعد سب سے بڑی کارروائی تھی۔

مزید پڑھیں:  Al-Qassam Brigades spokesman Abu Ubaida's reaction on the 651st day of the Israeli war on Gaza - غزہ پر اسرائیلی جنگ کے 651 ویں دن القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ کا رد عمل

ایک عارضی سیز فائر کا اعلان 15 جولائی کو کیا گیا، لیکن ایک اہم دروز رہنما، شیخ حکمت الحجری نے اسے مسترد کر دیا اور مسلح مزاحمت کی اپیل کی۔ 16 جولائی کو ایک اور سیز فائر معاہدہ ہوا، اور شامی فوج نے سویدا سے انخلا شروع کیا، لیکن تشدد دوبارہ شروع ہو گیا جب دروز گروہوں نے بدو دیہات پر جوابی حملے کیے۔ 18 جولائی 2025 کو، جھڑپیں دوبارہ شروع ہو گئیں، اور شامی فوج سویدا واپس لوٹ رہی ہے، جیسا کہ یورونیوز نے رپورٹ کیا (یورونیوز

جانی و مالی نقصانات

شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق، 18 جولائی 2025 تک سویدا میں ہونے والی جھڑپوں میں تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تفصیلی اعداد و شمار درج ذیل ہیں

ہلاکتیںگروہ
300دروز جنگجو
257شامی فوجی
نامعلومبدو قبائلی جنگجو
نامعلومشہری
600کل

سویدا شہر میں عمارتیں، دکانیں، اور دیگر انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ ایس او ایچ آر نے رپورٹ کیا کہ شہر میں پانی اور طبی سامان کی شدید کمی ہے، اور قومی ہسپتال پر ٹینکوں کے حملوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔ مار میکائیل چرچ کو لوٹا گیا، تباہ کیا گیا، اور اسے آگ لگائی گئی، جبکہ دمشق میں شامی جنرل سٹاف کمپلیکس اور صدارتی محل کو بھی نقصان پہنچا (ایس ایف جی میڈیا

فوجی طاقت کا موازنہ

شامی فوج

2025 میں، شام کی فوج کو گلوبل فائر پاور نے 145 ممالک میں سے 64ویں نمبر پر رکھا، جس کا پاور انڈیکس 1.2771 ہے۔ شامی فوج کے پاس تقریباً 270,000 اہلکار ہیں، جن میں شامل ہیں

  • 170,000 فعال اہلکار
  • 50,000 ریزرو
  • 50,000 پیرا ملٹری

ان کے پاس 365 ٹینک، 11,148 گاڑیاں، 90 خودکار توپخانے، 641 روایتی توپخانے، اور 204 راکٹ لانچر ہیں۔ نئی حکومت نے جون 2025 تک 200,000 فوجیوں کی فوج بنانے کا ہدف رکھا، جس میں مختلف باغی گروہوں اور سابق فوجیوں کو شامل کیا گیا۔

دروز ملیشیا

دروز ملیشیا کی صحیح تعداد واضح نہیں، لیکن ذرائع کے مطابق، ان کے پاس کئی ہزار جنگجو ہیں۔ سب سے بڑی ملیشیا “مین آف ڈگنیٹی موومنٹ” ہے، جس کی قیادت یحییٰ الحجار کرتے ہیں۔ دیگر گروہوں میں “ماؤنٹین بریگیڈ” اور “شیخ الکرامہ فورسز” شامل ہیں۔ دروز ملیشیا اپنے علاقوں میں مضبوط ہیں اور مقامی حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، لیکن شامی فوج کے مقابلے میں ان کی تعداد اور ساز و سامان محدود ہے (این پی آر

اسرائیل کا کردار

اسرائیل نے دروز کی حفاظت کے لیے شامی فوج پر حملے کیے اور جنوبی شام میں ایک غیر فوجی علاقہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ دروز کے ساتھ “بھائی چارے کے گہرے اتحاد” کی وجہ سے ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے دمشق میں وزارت دفاع اور صدارتی محل کے قریب حملے کیے، جو نئی شامی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ تاہم، اسرائیل کی یہ کارروائیاں صرف دروز کی حفاظت تک محدود نہیں ہیں۔ اسرائیل نئی شامی حکومت کو “انتہا پسند اسلامی رژیم” سمجھتا ہے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل نے دسمبر 2024 میں گولان کی پہاڑیوں کے قریب ایک بفر زون بھی قائم کیا، جسے شام اور عالمی برادری نے غیر قانونی قرار دیا (سی این این

عالمی برادری کا ردعمل

عالمی برادری نے اس صورتحال پر مختلف ردعمل دیے ہیں

  • روس: روس نے اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی اور انہیں شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا (بی بی سی
  • ترکی: ترکی نے شام کی نئی حکومت کی حمایت کی اور اسرائیل کے حملوں کو امن کے لیے خطرہ قرار دیا (رائٹرز
  • لبنان: لبنان کے وزیر اعظم نواف سلام نے حملوں کی مذمت کی اور عالمی برادری سے تشدد روکنے کی اپیل کی (اے پی نیوز
  • امریکہ: امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے اعلان کیا کہ تشدد ختم کرنے کے لیے مخصوص اقدامات پر اتفاق ہوا ہے۔ شام نے امریکہ اور عرب ممالک کی کوششوں کا خیرمقدم کیا (رودا
مزید پڑھیں:  بحیرہ احمر میں حوثیوں کا بحری جہاز پر حملہ، میجک سیز کو سمندر میں غرق کرنے کی ویڈیو جاری

کلیدی نکات

  • دروز، بدو، اور شامی فوج کے درمیان تنازع: جولائی 2025 میں شام کے جنوبی صوبے سویدا میں دروز ملیشیا، بدو قبائل، اور شامی فوج کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، جو ایک دروز تاجر کے اغوا سے شروع ہوئیں۔
  • جانی نقصان: شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق، 18 جولائی 2025 تک تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں دروز جنگجو، شامی فوجی، بدو، اور شہری شامل ہیں۔
  • اسرائیل کی مداخلت: اسرائیل نے دروز کی حفاظت کے لیے شامی فوج پر فضائی حملے کیے ہیں، جو شام کی نئی حکومت کی مخالفت سے بھی منسلک ہیں۔
  • عالمی ردعمل: روس، ترکی، اور لبنان نے اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی ہے، جبکہ امریکہ نے سیز فائر کی کوشش کی ہے۔
  • فوجی طاقت: شامی فوج کے پاس تقریباً 270,000 اہلکار ہیں، جبکہ دروز ملیشیا کے پاس کئی ہزار جنگجو ہیں، لیکن ان کی تعداد غیر واضح ہے۔

مستقبل کے امکانات

شام میں دروز، بدو، اور شامی فوج کے درمیان حالیہ جھڑپیں ملک کی نازک صورتحال کو اجاگر کرتی ہیں۔ نئی حکومت کو مختلف گروہوں کے ساتھ مذاکرات اور مفاہمت کی ضرورت ہے تاکہ استحکام لایا جا سکے۔ اسرائیل کی مداخلت نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، اور عالمی برادری کو شام میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ دروز برادری اپنی خودمختاری اور تحفظ کے لیے پرعزم ہے، لیکن شامی فوج کے مقابلے میں ان کی طاقت محدود ہے۔ اگرچہ سیز فائر کے معاہدوں کی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن ان کی پائیداری غیر یقینی ہے۔ شام کے مستقبل کے لیے، تمام فریقین کو مل کر کام کرنے اور پرامن حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

FAQs on the Druze and Syrian Army Conflict in Suwayda (July 2025)

What is the current situation in Suwayda, Syria?

The southern Syrian province of Suwayda has been experiencing violent clashes since July 13, 2025, primarily between Druze militias, Bedouin tribes, and the Syrian Army. The conflict began with the kidnapping of a Druze merchant, escalating into armed confrontations. As of July 18, 2025, the Syrian Observatory for Human Rights (SOHR) reports approximately 600 deaths, including 300 Druze fighters, 257 Syrian soldiers, and an unspecified number of Bedouin fighters and civilians. Infrastructure in Suwayda, including shops, buildings, and the national hospital, has been heavily damaged.

Who are the Druze?

The Druze are an Arabic-speaking religious minority primarily residing in Syria, Lebanon, and Israel. Their faith, which originated in the 11th century from Ismaili Shia Islam, incorporates elements of Christianity, Hinduism, and ancient Greek philosophies. In Syria, they constitute about 3.2% of the population, mainly living in Suwayda and the southern suburbs of Damascus. Known for their strong community loyalty and autonomy, the Druze maintain secretive religious practices and do not accept converts or intermarry outside their community.

What caused the recent clashes in Suwayda?

The conflict was triggered on July 13, 2025, by the kidnapping of a Druze merchant in Suwayda, leading to clashes between Druze militias and Sunni Bedouin tribes. The Syrian Army intervened to restore order, but the Druze militias rejected their presence, preferring to rely on their own forces. The situation escalated further with Israeli airstrikes targeting Syrian Army positions in support of the Druze, complicating the conflict.

مزید پڑھیں:  امریکہ کا بی 2 بمبار جنگی طیارہ بھی ایران کا ایٹمی جوہری پروگرام ختم نہیں کرسکا؟

What is the Syrian Army’s role in the conflict?

The Syrian Army, with approximately 270,000 personnel (including 170,000 active, 50,000 reserves, and 50,000 paramilitary), intervened to quell the violence between Druze and Bedouin groups. However, their presence was met with resistance from Druze militias, who view the army as an external force infringing on their autonomy. The army’s return to Suwayda on July 18, 2025, after a failed ceasefire, has reignited fighting.

What is Israel’s involvement in the conflict?

Israel conducted airstrikes on Syrian Army positions, including near the Ministry of Defense and the presidential palace in Damascus, claiming to protect the Druze community. Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu cited a “deep alliance” with the Druze. However, Israel’s actions are also seen as an attempt to weaken Syria’s new government, led by Ahmad al-Sharaa, which Israel considers an “extremist Islamic regime.” Israel’s establishment of a buffer zone near the Golan Heights in December 2024 has been condemned as illegal by Syria and the international community.

How have international actors responded?

Russia: Condemned Israel’s airstrikes as a violation of Syrian sovereignty.
Turkey: Supported Syria’s new government and criticized Israel’s actions as a threat to regional peace.
Lebanon: Prime Minister Najib Mikati condemned the attacks and called for international intervention to stop the violence.
United States: Secretary of State Marco Rubio announced agreements on specific measures to end the violence, with Syria welcoming U.S. and Arab efforts for a ceasefire.

What are the casualties and damages reported?

According to SOHR, as of July 18, 2025, around 600 people have been killed, including 300 Druze fighters and 257 Syrian soldiers, with additional Bedouin and civilian casualties not fully specified. Suwayda has seen significant destruction, with shops, buildings, and the national hospital damaged by tank attacks. The Mar Mikhael Church was looted and set on fire, and key government buildings in Damascus, including the General Staff Complex and presidential palace, were also damaged.

What is the military strength of the Druze militias compared to the Syrian Army?

The Syrian Army is ranked 64th out of 145 countries by Global Firepower in 2025, with a power index of 1.2771, 365 tanks, 11,148 vehicles, and significant artillery. In contrast, Druze militias, including groups like the Men of Dignity Movement, Mountain Brigade, and Sheikh al-Karama Forces, are estimated to have several thousand fighters but lack precise numbers and heavy weaponry. Their strength lies in local knowledge and community cohesion.

What attempts have been made to resolve the conflict?

Two ceasefire agreements were attempted on July 15 and 16, 2025. The first was rejected by Druze leader Sheikh Hikmat al-Hajri, who called for continued resistance. The second led to a partial withdrawal of Syrian forces from Suwayda, but fighting resumed when Druze groups attacked Bedouin villages. As of July 18, 2025, the Syrian Army is reportedly returning to Suwayda, indicating ongoing tensions.

What is the broader context of Syria’s situation?

Syria has been embroiled in a civil war since 2011, triggered by protests against Bashar al-Assad’s regime, which turned into a devastating conflict displacing millions and killing hundreds of thousands. In December 2024, Assad’s government was overthrown by rebel groups led by Hayat Tahrir al-Sham (HTS), and Ahmad al-Sharaa (formerly Abu Mohammed al-Julani) became interim president. The new government struggles to stabilize the country amid tensions with groups like the Druze, who distrust its leadership due to its past jihadi affiliations.

What is the future outlook for Suwayda and Syria?

The ongoing clashes highlight Syria’s fragile state. The new government must navigate negotiations with diverse groups like the Druze to achieve stability. Israel’s involvement risks further escalation, and international efforts are crucial for a lasting peace. The Druze’s commitment to autonomy and limited military capacity suggest that a sustainable resolution will require diplomatic efforts to address their concerns while integrating them into Syria’s broader governance framework.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *