Cambodia seeks Pakistan’s help to prevent border dispute with Thailand – کمبوڈیا نے تھائی لینڈ کے ساتھ سرحدی تنازع روکنے کے لیے پاکستان سے مدد مانگ لی
تنازع
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان سرحدی تنازعات کی ایک طویل تاریخ ہے جو کہ وقتاً فوقتاً عالمی توجہ حاصل کرتی رہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں، 24 جولائی 2025 کو، کمبوڈیا کے وزیراعظم سامدیچ موہا بورور تھیپادی ہن مینٹ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر، پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد کے نام ایک خط لکھا، جس میں تھائی لینڈ کی جانب سے کمبوڈیا کے خلاف فوجی جارحیت کی شدید مذمت کی گئی۔ یہ بلاگ اس خط کے مندرجات اور اس تنازع کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، ساتھ ہی اسے ایک عام قاری کے لیے سادہ اور قابل فہم انداز میں پیش کیا جائے گا۔
خط کا خلاصہ
کمبوڈیا کے وزیراعظم ہن مینٹ نے اپنے خط میں تھائی لینڈ کی فوج کی جانب سے 24 جولائی 2025 کو صبح سویرے کمبوڈیا کے سرحدی علاقوں، بشمول تامون تھوم مندر، تا کرابی مندر، اور موم بی، پر بلا اشتعال اور منصوبہ بند حملوں کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے اقوام متحدہ کے چارٹر اور آسیان چارٹر کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو کہ کسی بھی ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی کی ممانعت کرتے ہیں۔
کمبوڈیا نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف ایک سنگین خطرہ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس کے فوجیوں نے اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کی۔ خط میں تھائی لینڈ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر تمام جارحانہ کارروائیاں بند کرے، اپنی فوج کو سرحد کے اپنے حصے میں واپس بلائے، اور ایسی کوئی حرکت نہ کرے جو صورتحال کو مزید خراب کرے۔
تنازع کی تاریخی پس منظر
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان سرحدی تنازعات کی جڑیں 1904 اور 1907 کے فرانکو-سیامی کنونشن اور معاہدوں تک جاتی ہیں، جن کے تحت دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی حد بندی کے لیے نقشے بنائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ، 2000 میں دونوں ممالک نے سرحدی سروے اور حد بندی کے لیے ایک مفاہمتی یادداشت (ایم او یو-2000) پر دستخط کیے، جس میں ان قانونی دستاویزات کی بنیاد پر سرحد کی حد بندی پر اتفاق کیا گیا۔
تاہم، تھائی لینڈ کی جانب سے اپنے یک طرفہ طور پر بنائے گئے نقشوں پر زور دینے کی وجہ سے تنازعات برقرار ہیں، جنہیں کمبوڈیا غیر قانونی سمجھتا ہے۔ حالیہ تنازع کا ایک اہم سبب تھائی اہلکاروں کی جانب سے ایک بارودی سرنگ کے دھماکے کا واقعہ ہے، جس کے بارے میں تھائی لینڈ نے کمبوڈیا پر بے بنیاد الزامات عائد کیے کہ یہ ان کے علاقے میں ہوا۔ کمبوڈیا کا کہنا ہے کہ تھائی اہلکار پہلے سے طے شدہ گشت کے راستوں سے ہٹ کر کمبوڈیا کے سرکاری طور پر رجسٹرڈ بارودی سرنگوں والے علاقوں میں داخل ہوئے تھے۔
حالیہ کشیدگی
24 جولائی 2025 کو ایکس پر پوسٹس کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان فوجی جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں۔ تھائی لینڈ نے دعویٰ کیا کہ کمبوڈین فوج نے پہلے فائرنگ کی، جبکہ کمبوڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے تھائی دراندازی کے جواب میں خود دفاع میں کارروائی کی۔ یہ جھڑپیں تامون تھوم مندر کے قریب شروع ہوئیں، جو کہ سرحدی تنازع کا ایک اہم نقطہ ہے۔ ایکس پر ایک پوسٹ کے مطابق، تھائی لینڈ نے بھاری ہتھیاروں اور ایف-16 لڑاکا طیاروں کو تعینات کرنے کی تیاری کی، جبکہ کمبوڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے اہم سرحدی مقامات پر قبضہ کر لیا ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ کمبوڈیا نے 2 جون 2025 کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) سے رجوع کیا تھا تاکہ چار متنازع سرحدی علاقوں (موم بی، تامون تھوم مندر، تامون ٹچ مندر، اور تا کرابی مندر) کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ اس کے باوجود، تھائی لینڈ کی فوجی کارروائی نے علاقائی امن و استحکام کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
کمبوڈیا کا مطالبہ
وزیراعظم ہن مینٹ نے اپنے خط میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری اجلاس بلانے کی درخواست کی تاکہ تھائی لینڈ کی جارحیت کو روکا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ خط سلامتی کونسل کے ارکان میں بطور دستاویز تقسیم کیا جائے۔ کمبوڈیا کا موقف ہے کہ وہ پرامن اور غیر جانبدار قانونی راستوں سے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے، جیسا کہ اس نے 14-15 جون 2025 کو فوم پنہ میں جوائنٹ باؤنڈری کمیشن (جے بی سی) کے اجلاس کی میزبانی کرکے دکھایا۔
نتیجہ
کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان یہ حالیہ تنازع علاقائی استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ کمبوڈیا نے واضح طور پر اپنے پرامن عزائم اور قانونی راستوں سے تنازع حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جبکہ تھائی لینڈ کی فوجی کارروائیوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ عالمی برادری، بالخصوص اقوام متحدہ، کو اس معاملے میں فوری مداخلت کرنی چاہیے تاکہ مزید خونریزی اور کشیدگی سے بچا جا سکے۔
یہ تنازع ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ سرحدی مسائل کو طاقت کے بجائے مذاکرات اور بین الاقوامی قانون کے ذریعے حل کرنا زیادہ پائیدار اور پرامن حل ہے۔ امید ہے کہ دونوں ممالک جلد ہی اس تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک پرامن راستہ اختیار کریں گے۔