اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Wed 6-August-2025AD 11 Safar 1447AH

ابراہام اکارڈز: ایک سیاسی اور عقیدتی معاہدے کا مکمل پوسٹ مارٹم

The Abraham Accords: A Complete Postmortem of a Political and Ideological Agreement

تعارف

ابراہام اکارڈز مشرق وسطیٰ کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہیں، جنہوں نے اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کی۔ یہ معاہدات 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں دستخط کیے گئے۔ ان کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ہے، جو یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے مشترکہ جد امجد ہیں۔ اگرچہ ان معاہدات کو مشرق وسطیٰ میں امن کے فروغ کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن بہت سے ناقدین، خاص طور پر فلسطینی اور کچھ مسلم حلقوں میں، انہیں فلسطینیوں کے حقوق کی قیمت پر اور اسلامی نظریات کو کمزور کرنے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ یہ مضمون ابراہام اکارڈز کی تفصیلات، ان کے پس منظر، اثرات، اور پاکستان کے موقف کا جائزہ پیش کرتا ہے۔

ابراہام اکارڈز کیا ہیں؟

ابراہام اکارڈز ایک سلسلہ وار معاہدات ہیں جو 2020 میں شروع ہوئے، جن کا مقصد اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنا تھا۔ یہ معاہدات 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کیے گئے، جن کی ثالثی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے داماد جیرڈ کشنر نے کی۔ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور بحرین نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا، جو 1994 کے بعد سے کسی عرب ملک کی جانب سے اسرائیل کی پہلی رسمی شناخت تھی۔ اس کے بعد دسمبر 2020 میں مراکش اور جنوری 2021 میں سوڈان نے بھی اس عمل میں شمولیت اختیار کی، اگرچہ سوڈان کا معاہدہ 2024 تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہوا (ویکی پیڈیا

ان معاہدات کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کو فروغ دینا تھا، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کو خطے میں “نارملائز” کرنے اور اسلامی دنیا میں اسے قبول کرانے کی کوشش ہے۔ معاہدات کے تحت تجارت، سیکیورٹی، اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیا گیا۔

مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں

اب تک درج ذیل مسلم ممالک نے ابراہام اکارڈز کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں

تفصیلاتتاریخملک
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور تجارت اور دفاع کے شعبوں میں تعاون شروع کیا۔تیرہ اگست 2020متحدہ عرب امارات (یو اے ای)
بحرین نے متحدہ عرب امارات کے بعد اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا، جو سعودی عرب کی حمایت سے ممکن ہوا۔گیارہ ستمبر 2020بحرین
مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور بدلے میں مغربی صحارا پر امریکہ کی حمایت حاصل کی۔دسمبر 2020مراکش
سوڈان نے معاہدے پر دستخط کیے لیکن اندرونی مسائل کی وجہ سے مکمل نفاذ نہ ہو سکا۔جنوری 2021سوڈان

سعودی عرب اور شام نے 2025 تک دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن ابھی تک کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا (بریٹانیکا)۔ سوڈان کی صورتحال غیر واضح ہے، کیونکہ داخلی عدم استحکام نے مکمل عملدرآمد کو روک رکھا ہے (دی سیکیورٹی ڈسٹلری

“دینِ ابراہیمی” کے فتنے کا پس منظر

ابراہام اکارڈز کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کیا گیا، جنہیں یہود، عیسائی، اور مسلمان اپنا جد امجد مانتے ہیں۔ معاہدات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ “ابراہیمی ادیان” کے مشترکہ ورثے کو فروغ دیتے ہیں، جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر کہا گیا: “ہم بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کو فروغ دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ تینوں ابراہیمی ادیان اور تمام انسانیت کے درمیان امن کی ثقافت کو آگے بڑھایا جا سکے” (امریکی محکمہ خارجہ

تاہم، کچھ مسلم حلقوں میں اسے “دینِ ابراہیمی” کے فتنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اسلامی اصولوں کو کمزور کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کی کوشش ہے۔ فلسطینی اسلامی فتویٰ کونسل نے “ابراہام اکارڈز” کی اصطلاح کے استعمال کی مذمت کی ہے، اسے فلسطینی جدوجہد کے خلاف خیانت سمجھا (جینگلُو)۔ اس کے برعکس، یو اے ای کی فتویٰ کونسل نے معاہدات کی حمایت کی، انہیں “حق اور مناسب” قرار دیا (ساحل بلاگ

مزید پڑھیں:  غوری میزائل اسرائیل کو تباہ کرنے کیلئے ایران کو دو؟

یہ اختلاف رائے اسلامی دنیا میں مختلف نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے۔ کچھ ناقدین، جیسے کہ ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ کے مضمون میں، کہتے ہیں کہ یہ معاہدات مذہبی رواداری کے بجائے سیاسی مقاصد کے لیے ہیں، خاص طور پر ایران کے خلاف اتحاد بنانے کے لیے (ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ

اسرائیل کو فوائد

ابراہام اکارڈز سے اسرائیل کو متعدد فوائد حاصل ہوئے ہیں

  1. سفارتی تسلیم: یو اے ای، بحرین، اور مراکش کی جانب سے رسمی تسلیم نے اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیت کو مضبوط کیا۔ یہ 1994 کے بعد سے پہلا موقع تھا جب عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا (ویکی پیڈیا
  2. اقتصادی مواقع: معاہدات نے تجارت، سرمایہ کاری، اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئے مواقع پیدا کیے۔ مثال کے طور پر، اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان دو طرفہ تجارت 2023 تک تقریباً 3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی (اٹلانٹک کونسل)۔ امریکی حکومت نے ابراہام فنڈ قائم کیا، جس کا مقصد خطے میں 3 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔
  3. سیکیورٹی تعاون: ایران کے خلاف مشترکہ خطرات کے پیش نظر اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان دفاعی تعاون بڑھا، جیسے کہ بحرین اور یو اے ای کے ساتھ مشترکہ سیکیورٹی اقدامات (چتھم ہاؤس
  4. ثقافتی تبادلے: لوگوں کے درمیان تبادلے اور ثقافتی اقدامات، جیسے کہ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان سیاحت میں اضافہ، جہاں 2020 کے بعد سے 200,000 یہودی سیاحوں نے یو اے ای کا دورہ کیا (ویکی پیڈیا

فلسطینیوں کا نقصان

ابراہام اکارڈز نے فلسطینیوں کے لیے سنگین نتائج پیدا کیے ہیں

  1. فلسطینی موقف کی کمزوری: عرب ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کے قیام کی شرط کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطینیوں کی مذاکراتی پوزیشن کمزور ہوئی (ٹائم)۔ اس سے اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں اپنی پالیسیوں کو جاری رکھنے کی آزادی ملی۔
  2. خیانت کا احساس: فلسطینی قیادت، بشمول حماس اور الفتح، نے ان معاہدات کو “خیانت” اور “قدس فروش معاہدہ” قرار دیا۔ فلسطینی عوام نے ان معاہدات کی سخت مخالفت کی (اسٹینڈ وِد اس
  3. جاری قبضہ اور تشدد: معاہدات کے بعد مغربی کنارے میں آباد کاری کی سرگرمیوں اور تشدد میں اضافہ ہوا۔ ٹائم کے مطابق، معاہدات کے پہلے سال میں مغربی کنارے میں آباد کاروں کا تشدد نمایاں طور پر بڑھا، اور 2022 میں اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے مغربی کنارے کے الحاق کی کھلے عام وکالت کی (ٹائم
  4. علاقائی تنہائی: فلسطینیوں کو خطے میں تنہا کر دیا گیا، کیونکہ عرب ممالک نے اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کو ترجیح دی (ریسپانسبل اسٹیٹ کرافٹ

تاہم، ایک سروے کے مطابق، غزہ اور مشرقی یروشلم کے کچھ فلسطینیوں نے معاہدات کو ممکنہ اقتصادی فوائد کی وجہ سے مثبت دیکھا (واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ)۔ اس کے باوجود، عمومی رائے منفی ہے، کیونکہ معاہدات نے فلسطینی کاز کو کمزور کیا۔

پاکستان پر دباؤ اور دینی موقف

ابراہام اکارڈز کے بعد پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکہ اور ایک دوسرے ملک نے اس سلسلے میں دباؤ ڈالا، لیکن پاکستان نے واضح کیا کہ جب تک فلسطینیوں کے لیے منصفانہ حل نہیں ملتا، اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا (ویکی پیڈیا

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے 2025 میں کہا کہ پاکستان صرف اس صورت میں ابراہام اکارڈز میں شامل ہونے پر غور کرے گا جب فلسطینیوں کے لیے یروشلم کے ساتھ ایک آزاد ریاست کا حق تسلیم کیا جائے (اے وی اے پریس)۔ اسی طرح، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جون 2025 میں کہا کہ پاکستان فلسطینی تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی دیرینہ حمایت کو ترک نہیں کرے گا (ڈان

پاکستان کے دینی موقف کی جڑیں قائداعظم محمد علی جناح کے ویژن میں ہیں، جنہوں نے فلسطین کے مسئلے کو اولین ترجیح دی۔ پاکستان علماء کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی نے کہا کہ “پاکستان کسی بھی قیمت پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا” (عرب نیوز)۔ 2025 میں پاکستانی علماء نے فتویٰ جاری کیا کہ مسلم ممالک کے لیے اسرائیل کے خلاف جہاد واجب ہے (پانچ پیلرز

مزید پڑھیں:  ایران کے حملے سے اسرائیل کا مالی نقصان

ابراہام اکارڈز کے اثرات

ان معاہدات کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملوں میں اضافہ کیا، خاص طور پر 2021 سے 2025 تک (کارنیگی انڈومنٹ)۔ عرب دنیا میں اسرائیل کے خلاف ردعمل محدود رہا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاہدات نے اسرائیل کو زیادہ پراعتماد بنایا۔ تاہم، فلسطینی نوجوانوں کی مزاحمت نے اسرائیل کو مشکلات سے دوچار کیا۔

بطور مسلمان ہمارا موقف

ایک مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے ہمارا موقف واضح ہونا چاہیے

  • اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جو فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کر رہی ہے۔
  • فلسطین، قبلہ اول اور امت کی امانت ہے۔
  • ابراہام اکارڈز کے ذریعے فلسطینیوں کے حقوق کی فروخت کی گئی ہے۔
  • ہمیں سچ بولنا، بیدار رہنا، اور فلسطینیوں کی مزاحمت کی حمایت کرنی چاہیے۔

ابراہام اکارڈز: دین ابراہیمی کا عملی آغاز؟
ابراہام اکارڈز کو محض سیاسی معاہدہ نہ سمجھا جائے۔ یہ دراصل “ابراہیمی مذاہب کے اتحاد” کے خطرناک بیانیے کا عملی مظہر ہے، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام یکساں ہیں، سب سچے ہیں، اور کسی کو غلط نہیں کہنا چاہیے۔ یہ تصور اسلامی عقیدہ ختم نبوت اور توحید کے منافی ہے۔

دین ابراہیمی: کیا یہ اسلام ہے؟
دین ابراہیمی کے نام پر پیش کیا جانے والا عالمی بیانیہ اسلام سے متصادم ہے۔ اسلام واحد سچا دین ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (آل عمران: 19)
یہ کہنا کہ تینوں مذاہب سچے ہیں، عقیدہ کفر ہے۔

ابراہام اکارڈز: سفارتی معاہدہ یا دینی انحراف؟
2020ء کے ابراہام اکارڈز متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے اسرائیل سے تعلقات کا آغاز نہیں، بلکہ عقیدے کی تبدیلی کی عالمی مہم کا نقطہ آغاز ہیں۔ بین المذاہب عبادت گاہیں اور مشترکہ مذہبی تقریبات “امن” کے نام پر دین کو ملا دینے کی کوشش ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کس کے تھے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شرک کو توڑا اور وحدانیت کو پھیلایا۔ قرآن پاک فرماتا ہے:
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا (آل عمران: 67)
جو ان کے نام پر تینوں ادیان کو اکٹھا کر رہے ہیں، وہ ابراہیم علیہ السلام کے راستے سے ہٹ چکے ہیں۔

ابوظہبی میں بین المذاہب مندر
ابوظہبی کا “ابراہامی فیملی ہاؤس”، جہاں مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ ایک کمپلیکس میں بنائے گئے، توحید کو شرک کے ساتھ ملانے کی کوشش ہے۔

فلسطینیوں کا انکار: سیاسی یا عقیدتی؟
فلسطینی ابراہام اکارڈز کو محض سیاسی معاہدہ نہیں، بلکہ ایمانی خیانت سمجھتے ہیں۔ بیت المقدس پر یہودی و عیسائی قبضے کو جائز ماننا اور اسرائیل کو “ابراہیمی بھائی” کہنا اسلامی غیرت، عقیدہ اور امت کے اتحاد کے خلاف ہے۔

اسرائیل کی حکمت عملی
اسرائیل کا مقصد صرف سفارتی تعلقات نہیں، بلکہ صہیونی نظریہ کو “ابراہیمی” کہہ کر قابل قبول بنانا اور اسلامی خلافت و جہاد کے تصور کو “شدت پسندی” قرار دے کر مٹانا ہے۔

پاکستان پر دباؤ
پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ “اسلام کے نام پر نہیں، بلکہ انسانیت، امن اور دین ابراہیمی کے نام پر” اسرائیل کو تسلیم کرے۔ یہ نہ انسانیت ہے، نہ اسلام، بلکہ مظلوم مسلمانوں کے خون سے غداری ہے۔

حق و باطل کی لکیر دھندلی؟
ابراہام اکارڈز کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں پر بدترین مظالم ڈھائے، جبکہ عرب ممالک خاموش رہے۔ بین المذاہب تقریبات “دین ابراہیمی” کے نام پر باطل کو حق کے برابر پیش کرنے کی سازش ہیں۔

ہمارا موقف: لا إله إلا الله
امت مسلمہ کو واضح اور دلیر موقف اپنانا ہوگا کہ اسلام ہی واحد سچا دین ہے۔ یہود و نصاریٰ گمراہ ہیں۔ ابراہام اکارڈز اور دین ابراہیمی کا بیانیہ باطل، گمراہ کن اور عقیدہ شکن ہے۔ امت کو کلمہ کی بنیاد پر اتحاد، غیرت اور مزاحمت کی طرف لوٹنا ہوگا۔

اختتام

ابراہام اکارڈز نے مشرق وسطیٰ کی سیاسی اور سفارتی صورتحال کو بدل دیا ہے، لیکن اس کی قیمت فلسطینیوں نے ادا کی ہے۔ پاکستان نے اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھا ہے، جو دینی اور سیاسی دونوں نقطہ نظر سے فلسطینیوں کے حق میں ہے۔ ہر مسلمان، طالب علم، صحافی، اور باشعور فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان معاہدات کے مضمرات کو سمجھے اور فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھے۔

مزید پڑھیں:  ایران نے اسرائیل کے ایف-35 جنگی طیاروں کو مار گرایا: دعویٰ اور تفصیلات

FAQs on the Abraham Accords: A Muslim Perspective

What are the Abraham Accords?

The Abraham Accords are a series of diplomatic agreements initiated in 2020 that normalized relations between Israel and several Arab countries, including the UAE, Bahrain, Morocco, and Sudan. These accords were brokered by the United States under President Donald Trump and are named after the Prophet Abraham, a shared patriarch in Judaism, Christianity, and Islam. While presented as peace initiatives, many critics see them as politically motivated efforts that ignored Palestinian rights and weakened Islamic solidarity.

Which Muslim countries have recognized Israel through the Abraham Accords?

As of now, the United Arab Emirates, Bahrain, Morocco, and Sudan have established diplomatic relations with Israel through the Abraham Accords. The UAE was the first to recognize Israel on August 13, 2020, followed by Bahrain in September, Morocco in December, and Sudan in January 2021. While these agreements have led to economic and security cooperation, some countries like Saudi Arabia and Syria have only expressed interest without formalizing any accord.

Why are the Accords named after Prophet Abraham?

The name “Abraham Accords” reflects an attempt to frame the agreements as a bridge between the Abrahamic faiths—Judaism, Christianity, and Islam. Supporters argue that it promotes interfaith dialogue and peaceful coexistence. However, some Muslim scholars and institutions view this as a deceptive narrative, masking geopolitical motives and undermining Islamic identity and the Palestinian cause.

How did the Abraham Accords benefit Israel?

Israel gained significant diplomatic and economic advantages from the accords. Formal recognition by Arab states bolstered its international legitimacy, while trade and investment opportunities surged—especially with the UAE. Security collaborations also increased, particularly in countering Iranian influence. Cultural exchanges, including tourism, expanded as well, highlighting the strategic value of normalization for Israel.

What impact did the Accords have on Palestinians?

The Abraham Accords were seen by many Palestinians as a betrayal. Arab states normalized relations with Israel without securing justice for Palestine, weakening the Palestinian position in peace negotiations. Violence and settlement expansion in the West Bank increased after the accords, while Palestinian leadership and civil society expressed deep frustration and rejection of these agreements.

What is the “Abrahamic Religion” controversy related to the Accords?

The “Abrahamic Religion” concept, promoted alongside the accords, aims to emphasize shared values among Jews, Christians, and Muslims. However, many Muslim scholars and organizations have condemned this as a dangerous innovation that dilutes Islamic teachings and distracts from the political realities of occupation and injustice in Palestine. It is often viewed as part of a broader attempt to neutralize Islamic resistance.

What is Pakistan’s stance on the Abraham Accords?

Pakistan has consistently refused to recognize Israel or join the Abraham Accords, stating that normalization is only possible after a just resolution to the Palestinian issue, including the establishment of an independent state with Jerusalem as its capital. Successive Pakistani governments, religious scholars, and civil society have upheld this principled stance, despite international pressure.

Has there been international pressure on Pakistan to recognize Israel?

Yes, former Prime Minister Imran Khan and other officials have confirmed that the United States and another unnamed country exerted pressure on Pakistan to recognize Israel. However, Pakistani leadership firmly resisted, citing historical, ideological, and religious reasons. The public sentiment in Pakistan overwhelmingly supports the Palestinian cause, making recognition politically unacceptable.

What religious arguments support Pakistan’s position?

Pakistan’s religious leaders argue that recognizing Israel without justice for Palestinians violates Islamic principles. They refer to the legacy of Muhammad Ali Jinnah and Islamic teachings that emphasize justice, resistance to oppression, and the sacred status of Al-Quds (Jerusalem). Several religious councils have even issued fatwas declaring normalization with Israel as impermissible under current conditions.

What is the long-term impact of the Abraham Accords on the Middle East?

The Abraham Accords have reshaped alliances in the Middle East, bringing Israel closer to certain Arab states while sidelining the Palestinian cause. They have also emboldened Israel’s military actions in Gaza and settlement activities in the West Bank. While economic ties have improved between Israel and some Arab states, the Accords have caused deep divisions within the Muslim world and intensified debates about the future of Palestine.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *