محمد رضا ثاقب مصطفائی صاحب نے شارع قدس (مرکز مصطفیﷺ) میں غزہ سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے بتایا کہ عوام اور حکمران فلسطین کے لئے کیا کرسکتے ہیں؟
عوام اور حکمران فلسطین (غزہ) کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟
تعارف
فلسطین کی سرزمین ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ غزہ، جو صرف 44 کلومیٹر لمبا اور 12-13 کلومیٹر چوڑا ہے، ایک ایسی جیل بن چکا ہے جہاں 23 لاکھ انسان بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں لیں، لاکھوں کو بے گھر کیا، اور خوراک، پانی، اور ادویات تک رسائی کو محدود کر دیا۔ یہ ایک مذہبی اور انسانی مسئلہ ہے، کیونکہ مسجد اقصیٰ، جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس تنازعہ کے مرکز میں ہے۔ پاکستانی عوام اور حکمران دونوں اس مقدس مقصد کی حمایت میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ مضمون اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ ہم کس طرح فلسطین کے لیے عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
فلسطین کی موجودہ صورتحال
غزہ میں حالات انتہائی سنگین ہیں۔ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے خوراک، ایندھن، پانی، اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ امریکن فرینڈز سروس کمیٹی کے مطابق، مارچ 2025 سے اسرائیلی حکومت نے غزہ میں امداد کی ترسیل کو شدید محدود کر دیا ہے، جس سے بھوک اور بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں، اور بچوں سمیت لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس صورتحال نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، لیکن بدقسمتی سے، عالمی طاقتیں اور مسلم حکمران خاموش ہیں۔
عوام کے لیے عملی اقدامات
پاکستانی عوام اپنی استطاعت کے مطابق فلسطین کی حمایت کر سکتے ہیں۔ ہر چھوٹا عمل، جیسے کہ ایک سوشل میڈیا پوسٹ یا ایک عطیہ، فرق لا سکتا ہے۔ درج ذیل کچھ عملی اقدامات ہیں
آگاہی پھیلانا
- سوشل میڈیا مہمات: غزہ سے آنے والی تصاویر اور خبروں کو شیئر کریں تاکہ دنیا بھر میں آگاہی پھیلے۔ عرب ڈاٹ آرگ جیسے پلیٹ فارمز مفت کلک کے ذریعے امداد فراہم کرنے کی سہولت دیتے ہیں۔
- احتجاج اور مظاہرے: مقامی سطح پر احتجاجی ریلیوں میں شرکت کریں تاکہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے۔ یہ مظاہرے عالمی ضمیر کو جگانے میں مدد دیتے ہیں۔
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ
تحریک بائیکاٹ: اسرائیلی قبضے کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات سے پرہیز کریں۔ یہ ایک اخلاقی موقف ہے جو ظلم کے خلاف احتجاج کی علامت ہے۔ اگرچہ اس کا معاشی اثر محدود ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہمارے ایمان اور جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔
انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو عطیات
- پاکستانی خیراتی ادارے: الخدمت فاونڈیشن نے غزہ میں 3,310 ٹن امداد فراہم کی ہے، جس کی مالیت 5.4 ارب روپے ہے۔ اسی طرح، جے ڈی سی ویلفیئر آرگنائزیشن بھی فلسطین کے لیے امداد جمع کر رہی ہے۔
- عالمی تنظیمات: پی سی آر ایف، اینیرا، اور آئی آر یو ایس اے جیسے اداروں کو عطیات دیے جا سکتے ہیں جو فلسطینیوں کو طبی اور انسانی امداد فراہم کرتے ہیں۔
دوسروں کو تعلیم دینا
- اپنے دوستوں، خاندان، اور برادری کو فلسطین کی تاریخ اور موجودہ حالات کے بارے میں بتائیں۔ خاص طور پر، نئی نسل کو مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں آگاہ کریں۔
- مساجد، اسکولوں، اور کمیونٹی سینٹرز میں بحث و مباحثہ کے پروگرام منعقد کریں۔
فلسطینی کاروباروں کی حمایت
- فلسطین میں تیار کردہ مصنوعات، جیسے زیتون کا تیل یا دستکاری، خریدیں تاکہ ان کی معیشت کو تقویت ملے۔ بلڈ فلسطین جیسے پلیٹ فارمز اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
پٹیشنز اور لابنگ
- آن لائن پٹیشنز پر دستخط کریں اور اپنے مقامی نمائندوں سے رابطہ کریں تاکہ وہ فلسطینی حقوق کی حمایت کرنے والی پالیسیوں کی وکالت کریں۔
حکمرانوں کے لیے عملی اقدامات
پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے، جیسے کہ 1947 میں اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کے خلاف ووٹ دینا اور 1967 اور 1973 کی عرب-اسرائیل جنگوں میں فلسطینیوں کی مدد کرنا۔ موجودہ حالات میں، پاکستانی حکمران درج ذیل اقدامات اٹھا سکتے ہیں:
سفارتی حمایت
- پاکستان کی قومی اسمبلی نے اپریل 2025 میں ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیلی مظالم کی مذمت کی گئی۔ اس طرح کی سفارتی کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں۔
- فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے اور اس کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت کریں۔
انسانی ہمدردی کی امداد
عرب نیوز کے مطابق، پاکستان نے غزہ کے لیے 40 ٹن امدادی سامان بھیجا۔ اس طرح کی امداد کو بڑھانا چاہیے، خاص طور پر خوراک، ادویات، اور پناہ گاہوں کے لیے۔
اسرائیلی اقدامات کی مذمت
عالمی فورمز، جیسے او آئی سی اور اقوام متحدہ، میں اسرائیلی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کے لیے مضبوط بیانات جاری کریں۔
قانونی کارروائی کی حمایت
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق، پاکستان انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں فلسطین کے حقوق کے لیے قانونی کارروائی کی حمایت کر سکتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا
فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ سفارتی اور تعلیمی تعاون کو بڑھائیں، جیسے کہ پاکستانی فوجی اداروں میں فلسطینی افسران کی تربیت۔
امن کی پہل کو سہولت فراہم کرنا
پاکستان ثالث کے طور پر یا امن مذاکرات کی حمایت کر کے فلسطین-اسرائیل تنازعہ کے پرامن حل میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
نئی نسل کی تعلیم
فلسطین کا مسئلہ صرف سیاسی نہیں، بلکہ مذہبی اور اخلاقی بھی ہے۔ پاکستانی عوام کو اپنی نئی نسل کو مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں سکھانا چاہیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں اسلامی اقدار اور فلسطین کی تاریخ پر مبنی نصاب شامل کیا جا سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو غیر ملکی ثقافتی اثرات سے بچائیں اور ان کے دلوں میں دین کی روشنی ڈالیں۔
اتحاد کی ضرورت
فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کے باوجود، ہم تقسیم ہیں۔ اگر ہم متحد ہو جائیں، تو کوئی طاقت ہمارے خلاف نہیں ٹھہر سکتی۔ خلافت کا تصور، جیسا کہ ویڈیو میں ذکر کیا گیا، ایک مثالی حل ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور شعور کی ضرورت ہے۔
اختتام
فلسطین کے لیے ہر عمل، چاہے وہ ایک سوشل میڈیا پوسٹ ہو، ایک عطیہ ہو، یا ایک سفارتی قرارداد، ایک امید کی کرن ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے، جیسے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی قرارداد اور امدادی سامان کی ترسیل سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں، کیونکہ فلسطینیوں کی جدوجہد ہماری جدوجہد ہے۔ انشاء اللہ، ایک دن ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرح بیت المقدس کے مزار پر جا کر سلام پیش کریں گے اور فلسطینیوں کی آزادی کا جشن منائیں گے۔
1 thought on “عوام اور حکمران فلسطین (غزہ) کیلئے کیا کرسکتے ہیں؟”
اللهم انصر إخواننا في فلسطين، وارفع عنهم البلاء، واحمِهم برحمتك، وثبّت أقدامهم، واغفر لشهدائهم. آمين.
Allahumma unsur ikhwanana fi Filasteen, warfa‘ ‘anhum al-bala’, wahmihim birahmatika, wathabbit aqdamahum, waghfir li-shuhada’ihim. Ameen.