Martyr Anas Sharif The brave journalist who never let Gaza voice be silenced | شہید انس شریف: غزہ کی آواز کو کبھی خاموش نہ ہونے دینے والا بہادر صحافی
انس جمال شریف ایک بہادر فلسطینی صحافی تھے جو غزہ کی آواز بن کر ابھرے۔ وہ الجزیرہ چینل کے مراسل تھے اور غزہ کی جنگ زدہ زندگی کو دنیا تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس بلاگ میں ان کی زندگی کے مختلف مراحل کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا، بشمول ان کی پیدائش، تعلیم، شادی، بچے، صحافتی کیریئر، مشکلات، غزہ میں خدمات اور شہادت۔ یہ معلومات معتبر ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں اور جہاں ضروری ہو، حوالے دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے ٹویٹس پر پیغامات اور آخری پیغام کو بھی شامل کیا جائے گا۔
تعارف
انس جمال شریف فلسطین کے غزہ پٹی میں واقع جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے رہائشی تھے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئے جہاں زندگی کی مشکلات روزمرہ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کو صحافت کے ذریعے فلسطینیوں کی آواز بنانے میں وقف کر دیا۔ الجزیرہ کے لیے کام کرتے ہوئے، انہوں نے غزہ کی جنگ کی ہولناکیوں کو دنیا بھر میں نشر کیا۔ ان کی شہادت 10 اگست 2025 کو اسرائیلی فضائی حملے میں ہوئی، جو ایک صحافیوں کے خیمے پر کیا گیا تھا۔(الجزیرہ) ان کی عمر صرف 28 سال تھی۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی
انس جمال شریف 1997 میں غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ یہ کیمپ فلسطینی پناہ گزینوں کا ایک بڑا مرکز ہے جہاں ہزاروں لوگ محدود وسائل میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی ابتدائی زندگی کیمپ کی تنگ گلیوں اور روزمرہ کی جدوجہد میں گزری۔ ان کے والد کا نام جمال الشریف تھا، جو دسمبر 2023 میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔(الجزیرہ) انس نے اپنے بچپن سے ہی فلسطینیوں کی مشکلات کو قریب سے دیکھا، جو بعد میں ان کی صحافتی زندگی کا محرک بنا۔ ان کا خواب تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے آبائی شہر عسقلان (المجدل) واپس جائیں، جو اب اسرائیل کے قبضے میں ہے۔
تعلیم
انس نے غزہ کی الاقصی یونیورسٹی سے میڈیا کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فیکلٹی آف میڈیا سے گریجویٹ ہوئے۔(الجزیرہ) یہ یونیورسٹی غزہ میں میڈیا کی تعلیم کا ایک اہم مرکز ہے۔ ان کی تعلیم نے انہیں صحافت کے میدان میں داخل ہونے کی بنیاد فراہم کی۔ طالب علمی کے دنوں میں ہی انہوں نے فلسطینی مسائل پر توجہ مرکوز کی اور اپنی مہارتوں کو نکھارا۔
صحافت میں داخلہ اور کیریئر
انس نے صحافت کا آغاز الشمال میڈیا نیٹ ورک میں رضاکارانہ طور پر کیا۔ بعد میں وہ الجزیرہ عربیہ کے مراسل بن گئے۔(سکائی نیوز) انہوں نے اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی غزہ جنگ کے دوران شمالی غزہ سے رپورٹنگ کی۔ ان کا کیریئر 2024 میں ایک اہم موڑ پر پہنچا جب وہ رائٹرز کی ٹیم کا حصہ بنے، جس نے اسرائیل-حماس جنگ کی کوریج پر پلٹزر پرائز جیتا۔(رائٹرز) ان کی رپورٹنگ میں بمباری، بھوک اور تباہی کی حقیقی تصویر پیش کی گئی۔
مشکلات اور چیلنجز
انس کی صحافتی زندگی مشکلات سے بھری تھی۔ انہیں اسرائیلی فوج کی طرف سے دھمکیاں ملیں اور حماس کا رکن قرار دیا گیا، جو الجزیرہ اور انس نے مسترد کیا۔(دی گارڈین) ان کے والد کی شہادت نے انہیں ذاتی طور پر متاثر کیا۔ جنگ کے دوران وہ بمباری، بھوک اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا کرتے رہے۔ جولائی 2025 میں اسرائیلی فوج نے انہیں حماس کا دہشت گرد قرار دیا، جس سے ان کی جان کو خطرہ تھا۔(بی بی سی) وہ کہتے تھے کہ “مجھے لگتا ہے کہ میں کسی بھی لمحے بمباری کا شکار ہو سکتا ہوں۔” ان کی رپورٹنگ کے دوران وہ بھوک سے گرنے والے لوگوں کو دیکھتے اور رپورٹ کرتے رہے۔
غزہ میں خدمات
انس غزہ کی “آواز” تھے۔ انہوں نے شمالی غزہ سے جنگ کی ہولناکیوں کو نشر کیا، بشمول بھوک، مالنیوٹریشن اور بمباری۔(این ڈی ٹی وی) ان کی رپورٹس نے دنیا کو فلسطینیوں کی حالت زار سے آگاہ کیا۔ وہ الجزیرہ کے لیے لائیو رپورٹنگ کرتے اور سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹس دیتے۔ ان کی خدمات کی وجہ سے وہ 1.6 ملین انسٹاگرام فالوورز اور 578,000 ایکس فالوورز حاصل کر چکے تھے۔(انس شریف آفیشل ٹویٹر) انہوں نے بھوک سے مرنے والے بچوں کی کہانیاں شیئر کیں اور عالمی برادری سے اپیل کی۔
شادی اور خاندان
انس کی شادی بیان (ام صلاح) سے ہوئی۔ جنگ کی وجہ سے وہ اکثر الگ رہتے تھے، لیکن بیان نے خاندان کی ذمہ داری اٹھائی۔(الجزیرہ) ان کے دو بچے تھے: بیٹا صلاح اور بیٹی شام۔ انس اپنے بچوں کی نشوونما دیکھنے کے خواب دیکھتے تھے، لیکن جنگ نے انہیں الگ کر دیا۔ ان کی وصیت میں انہوں نے خاندان کی دیکھ بھال کی اپیل کی۔
شہادت
10 اگست 2025 کو انس الشریف الشفا ہسپتال کے قریب ایک صحافیوں کے خیمے پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔ اس حملے میں ان کے چار ساتھی بھی شہید ہوئے: محمد قریقہ، ابراہیم زاہر، محمد نوفل اور مومن علیوا۔(الجزیرہ) اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ انس حماس کے رکن تھے، لیکن یہ الزام بے بنیاد قرار دیا گیا۔(سی این این) ان کی شہادت نے عالمی سطح پر مذمت کی لہر دوڑا دی۔ ان کی نماز جنازہ میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔
ٹویٹس پر پیغامات
انس اپنے ایکس اکاؤنٹ پر فعال تھے۔ ان کے کچھ حالیہ پیغامات میں غزہ کی بمباری اور بھوک کی صورتحال پر توجہ تھی۔ مثال کے طور پر
- 10 اگست 2025: “اللهم سلِّم، سلِّم۔ قصف إسرائيلي عنيف ومركز بـ أحزمة نارية يستهدف المناطق الشرقية والجنوبية من مدينة غزة۔”
- 9 اگست 2025: غزہ میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ یہ “طريقة جديدة لقتل أهل غزة” ہے۔
ان کے پیغامات میں فلسطین کی آزادی اور غزہ کی حالت زار پر زور تھا۔
آخری پیغام
انس کا آخری پیغام ان کی وصیت تھی، جو ان کی شہادت کے بعد پوسٹ کیا گیا۔ یہ 6 اپریل 2025 کو لکھا گیا تھا اور لفظ بہ لفظ اردو میں یہاں پیش کیا جا رہا ہے (اصل عربی سے ترجمہ)
یہ میری وصیت اور میری آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جانیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز کو خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ سب سے پہلے سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی پوری کوشش اور طاقت صرف کی تاکہ اپنے لوگوں کے لیے آواز اور سہارا بنوں، جب سے میں نے جبالیہ پناہ گزین کیمپ کی گلیوں اور سڑکوں میں آنکھیں کھولیں۔ میری امید تھی کہ اللہ مجھے لمبی عمر دے تاکہ میں اپنے خاندان اور پیاروں کے ساتھ اپنے آبائی شہر عسقلان المحتلہ (المجدل) واپس جا سکوں۔ لیکن اللہ کی مرضی مقدم تھی، اور اس کا حکم نافذ ہے۔ میں نے درد کو اس کی تمام تفصیلات میں جیا، دکھ اور نقصان کو بار بار چکھا، پھر بھی میں نے کبھی سچ کو بغیر تحریف یا مسخ کیے بیان کرنے میں تامل نہیں کیا، تاکہ اللہ ان لوگوں کے خلاف گواہ ہو جو خاموش رہے، جو ہمارے قتل کو قبول کرتے رہے، جو ہماری سانسوں کو گھیرے رکھا اور ہمارے بچوں اور عورتوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں سے ان کے دل نہیں ہلے، اور انہوں نے اس قتل عام کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جو ہمارے لوگ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے برداشت کر رہے ہیں۔
میں آپ کو فلسطین کی وصیت کرتا ہوں، جو مسلمانوں کے تاج کی جواہر ہے، جو اس دنیا میں ہر آزاد شخص کے دل کی دھڑکن ہے۔ میں آپ کو اس کے لوگوں کی وصیت کرتا ہوں، اس کے مظلوم اور معصوم بچوں کی جو زندگی نہیں گزار سکے، امن اور سلامتی میں خواب نہیں دیکھ سکے، ان کی پاکیزہ جسموں کو ہزاروں ٹن اسرائیلی بموں اور میزائلوں سے کچلا گیا، پھٹ گئے اور ان کے ٹکڑے دیواروں پر بکھر گئے۔
میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ زنجیریں آپ کو خاموش نہ کریں، نہ ہی سرحدیں آپ کو روکیں، اور آپ لوگوں اور زمین کی آزادی کی طرف پل بنیں، یہاں تک کہ کرامت اور آزادی کی سورج ہماری چھینی ہوئی سرزمین پر طلوع ہو۔ میں آپ کو اپنے خاندان کی دیکھ بھال کی وصیت کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک، اپنی پیاری بیٹی شام کی وصیت کرتا ہوں، جسے میں نے اپنے خوابوں کی طرح بڑھتا دیکھنے کا موقع نہیں پایا۔
میں آپ کو اپنے پیارے بیٹے صلاح کی وصیت کرتا ہوں، جسے میں نے چاہا کہ میں اس کا سہارا بنوں اور زندگی کی راہ میں اس کا ساتھ دوں یہاں تک کہ وہ مضبوط ہو جائے اور میرے بوجھ کو اٹھائے اور مشن کو جاری رکھے۔
میں آپ کو اپنی پیاری ماں کی وصیت کرتا ہوں، جس کی برکت والی دعاؤں نے مجھے یہاں تک پہنچایا، جس کی دعائیں میرا قلعہ تھیں اور جس کا نور میری راہ تھا۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کے دل پر سکون دے اور مجھے اس کی طرف سے بہترین اجر دے۔
میں آپ کو اپنی زندگی کی ساتھی، اپنی پیاری بیوی ام صلاح بیان کی بھی وصیت کرتا ہوں، جسے جنگ نے مجھ سے طویل دنوں اور مہینوں کے لیے الگ کر دیا۔ پھر بھی وہ عہد پر قائم رہی، زیتون کے تنے کی طرح مضبوط جو نہیں جھکتا، صابر اور اللہ پر بھروسہ کرنے والی، جو میری غیر موجودگی میں ذمہ داری کو پوری طاقت اور ایمان سے اٹھاتی رہی۔
میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کے بعد ان کا سہارا بنیں۔ اگر میں مر جاؤں تو میں اپنے اصول پر ثابت قدم مرتا ہوں۔ میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس کے فیصلے سے راضی ہوں، اس سے ملنے کا یقین رکھتا ہوں، اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ بہتر اور ابدی ہے۔
اے اللہ، مجھے شہداء میں قبول فرما، میرے گزشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف فرما، اور میرے خون کو ایک نور بنا جو میرے لوگوں اور خاندان کے لیے آزادی کی راہ کو روشن کرے۔ اگر میں کوتاہی کی تو مجھے معاف کر دو، اور مجھے رحمت سے دعا دو، کیونکہ میں نے عہد پر قائم رہا اور نہ بدلا اور نہ دھوکہ دیا۔
غزہ کو مت بھولو… اور مجھے اپنی خلوص کی دعاؤں میں مغفرت اور قبول کی یاد رکھو۔
انس جمال الشریف
06.04.2025
یہ وہی ہے جو ہمارے پیارے انس نے اپنی شہادت پر شائع کرنے کی وصیت کی تھی۔
انس جمال شریف کی زندگی ایک جدوجہد تھی جو فلسطین کی آزادی کے لیے وقف تھی۔ ان کی شہادت ایک یادگار ہے کہ سچ کی آواز کو خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ انہیں شہداء میں بلند درجہ دے۔
Frequently Asked Questions (FAQs) about Anas Jamal Sharif
Who was Anas Jamal Sharif?
Anas Jamal Sharif was a courageous Palestinian journalist from the Jabalia refugee camp in Gaza. He worked as a correspondent for Al Jazeera, reporting on the realities of life in war-torn Gaza. He was martyred in an Israeli airstrike on August 10, 2025, at the age of 28.
Where was Anas Jamal Sharif born?
Anas was born in 1997 in the Jabalia refugee camp in the Gaza Strip, a densely populated area where Palestinian refugees face significant challenges due to limited resources.
What was Anas Sharif’s educational background?
Anas graduated from the Faculty of Media at Al-Aqsa University in Gaza, where he developed the skills that later defined his impactful journalism career.
What was Anas Sharif’s role in journalism?
Anas began his career volunteering with Al-Shamal Media Network before joining Al Jazeera Arabic as a correspondent. He gained international recognition for his reporting on the Israel-Hamas war, contributing to Reuters’ Pulitzer Prize-winning coverage in 2024.
What challenges did Anas face as a journalist?
Anas faced numerous challenges, including threats from the Israeli military, who falsely labeled him a Hamas member. He reported under constant risk of bombardment, hunger, and lack of medical resources, while also enduring personal losses, such as the martyrdom of his father in December 2023.
How did Anas contribute to Gaza?
Anas was a vital voice for Gaza, documenting the war’s atrocities, including hunger, malnutrition, and bombardments. His live reports and social media updates reached millions, raising global awareness about the plight of Palestinians.
Was Anas Jamal Sharif married, and did he have children?
Yes, Anas was married to Bayan (Umm Salah). They had two children: a son named Salah and a daughter named Sham. War often kept them apart, but Anas expressed his deep love for his family in his final testament.
How did Anas Jamal Sharif die?
Anas was martyred on August 10, 2025, in an Israeli airstrike targeting a journalists’ tent near Al-Shifa Hospital in Gaza. Four other journalists were also killed in the attack.
What were some of Anas Sharif’s notable social media posts?
Anas was active on X (@AnasAlSharif0), where he shared updates about Gaza’s dire situation. On August 10, 2025, he posted about intense Israeli airstrikes, and on August 9, he shared a video highlighting starvation in Gaza, describing it as a “new way to kill the people of Gaza.”
What was Anas Sharif’s final message?
Anas left a testament written on April 6, 2025, published after his martyrdom. In it, he expressed his dedication to Palestine, urged others to continue advocating for freedom, and entrusted the care of his family—his wife Bayan, children Salah and Sham, and mother—to his community. He called for Gaza not to be forgotten and sought forgiveness and prayers for his martyrdom.