Netanyahu’s Gaza occupation plan and Hamas’s reaction | نیتن یاہو کے غزہ پر قبضے کا منصوبہ اور حماس کا رد عمل
تعارف
آج 8 اگست 2025 کو اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ سٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے منصوبے کی منظوری دی، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازع میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس فیصلے نے اسرائیل کے اندر اور عالمی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، خاص طور پر انسانی حقوق اور غزہ میں یرغمالیوں کی صورتحال کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ مضمون نیتن یاہو کے حالیہ بیان، اسرائیل میں اس کی حمایت، اس سے پیدا ہونے والی افراتفری، اور حماس کے ردعمل کا جائزہ لیتا ہے۔
نیتن یاہو کا حالیہ بیان
نیتن یاہو نے حال ہی میں فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا ارادہ ہے کہ وہ غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرے، حماس کو ختم کرے، اور پھر اسے ایسی شہری حکومت کے حوالے کرے جو نہ تو حماس ہو اور نہ ہی اسرائیل کی تباہی کی حامی ہو۔ انہوں نے کہا، “ہم غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حماس کو ہٹائیں گے، اور پھر اسے ایسی شہری انتظامیہ کے حوالے کریں گے جو حماس نہ ہو اور نہ ہی اسرائیل کی تباہی کی حامی ہو۔” سیکیورٹی کابینہ نے 8 اگست 2025 کو غزہ سٹی پر قبضے کے منصوبے کی منظوری دی، جو اس مقصد کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ منصوبہ حماس کے خلاف سخت فوجی کارروائی اور غزہ سٹی کے تقریباً ایک ملین باشندوں کو جنوب کی طرف منتقل کرنے کی تجویز دیتا ہے۔ (آنادولو ایجنسی)
اسرائیل میں حمایت
اس منصوبے کو نیتن یاہو کی اتحادی جماعتوں، خاص طور پر انتہائی دائیں بازو کے وزراء ایتمار بن گویر (قومی سلامتی کے وزیر) اور بیزلیل سموٹریچ (مالیات کے وزیر) کی حمایت حاصل ہے۔ یہ دونوں وزراء حماس کے خلاف سخت موقف کے حامی ہیں اور جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا تو وہ نیتن یاہو کی اتحادی حکومت سے نکل جائیں گے، جو ان کی حکومت کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ (سی این این)
تاہم، اسرائیل کے اندر اس منصوبے کی شدید مخالفت بھی ہو رہی ہے۔ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندانوں نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے پیاروں کی جانوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ اپوزیشن رہنما یائر لاپڈ نے اسے “تباہی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ بن گویر اور سموٹریچ نے نیتن یاہو کو حماس کے ایجنڈے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر لکھا کہ یہ فیصلہ “وہ ہے جو حماس چاہتا تھا۔”
موقف | گروپ |
---|---|
غزہ سٹی پر قبضے کے منصوبے کی حمایت، خاص طور پر بن گویر اور سموٹریچ۔ | نیتن یاہو کی اتحادی جماعتیں |
فیصلے کی مذمت، یرغمالیوں کی جانوں کے خطرے کی تشویش۔ | یرغمالیوں کے خاندان |
فیصلے کو “تباہی” قرار دیا، حماس کے ایجنڈے کو فائدہ پہنچانے کا الزام۔ | اپوزیشن رہنما یائر لاپڈ |
افراتفری اور تنازع
اس منصوبے کے اعلان سے عالمی سطح پر شدید تنقید ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا کہ “اسرائیلی حکومت کا غزہ پر مکمل فوجی قبضے کا منصوبہ فوری طور پر روکا جانا چاہیے،” اور خبردار کیا کہ اس سے “بڑے پیمانے پر جبری نقل مکانی، مزید قتل، ناقابل برداشت تکالیف، اور تباہی” ہوگی۔ برط Jانیہ کے وزیراعظم کیئر سٹارمر نے اسے “غلط” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنازع کو ختم کرنے یا یرغمالیوں کی رہائی میں مدد نہیں دے گا بلکہ “مزید خونریزی” کا باعث بنے گا۔ جرمنی نے غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی سازوسامان کی برآمدات روک دی ہیں، اور چانسلر فریڈرک مرض نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے اہداف کے حصول کو مزید مشکل بناتا ہے۔ (بی بی سی)
اسرائیل کے اندر، اس منصوبے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہے ہیں۔ یرغمالیوں کے خاندانوں اور دیگر شہریوں نے اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کیے، جن میں یرغمالیوں اور فوجیوں کی حفاظت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ غزہ میں، اس منصوبے سے تنازع کی شدت بڑھنے اور انسانی بحران بدتر ہونے کا خدشہ ہے، خاص طور پر جب سے اکتوبر 2023 سے اب تک 61,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تفصیلات | ردعمل |
---|---|
منصوبے کو فوری روکنے کا مطالبہ، جبری نقل مکانی اور تباہی کی وارننگ۔ | اقوام متحدہ |
وزیراعظم کیئر سٹارمر نے منصوبے کو “غلط” قرار دیا، مزید خونریزی کی وارننگ۔ | برطانیہ |
غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی سازوسامان کی برآمدات روک دیں۔ | جرمنی |
یرغمالیوں کے خاندانوں اور دیگر کی طرف سے احتجاج، یرغمالیوں کی حفاظت کی تشویش۔ | اسرائیلی عوام |
حماس کا ردعمل
حماس نے غزہ سٹی پر قبضے کے منصوبے کو “جنگی جرم اور فلسطینیوں کے خلاف نسلی صفائی” قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ گروپ نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ وہ اس فوجی مہم جوئی کی “بھاری قیمت” ادا کرے گا۔ حماس نے نیتن یاہو اور ان کی “نازی حکومت” پر الزام لگایا کہ وہ یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر جنگ کو وسعت دے رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے “کنٹرول” کے لفظ کو “قبضے” سے بدلنے کو قانونی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش قرار دیا۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک جامع معاہدے کی طرف بڑھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات ا اٹھائے گی، جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیلی فوج کا انخلا شامل ہے۔ (سی بی ایس نیوز)
تفصیلات | حماس کا موقف |
---|---|
“جنگی جرم اور نسلی صفائی” قرار دیا۔ | منصوبے کی مذمت |
“بھاری قیمت” ادا کرنے کی دھمکی۔ | اسرائیل کو وارننگ |
یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا الزام۔ | نیتن یاہو پر الزام |
“کنٹرول” کے لفظ کو “قبضے” سے بدلنے کو قانونی چالاکی قرار دیا۔ | قانونی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش |
نتیجہ
غزہ سٹی پر قبضے کے منصوبے کی منظوری اسرائیلی-فلسطینی تنازع میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگرچہ اسے نیتن یاہو کی اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، لیکن اسے اسرائیل کے اندر اور عالمی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اس منصوبے سے تشدد میں اضافے اور انسانی بحران کے بگڑنے کا خطرہ ہے، جبکہ حماس نے اس کے خلاف مزاحمت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اس فیصلے کے نتائج واضح ہوں گے، لیکن فی الحال یہ خطہ ایک نازک صورتحال سے دوچار ہے۔