اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Thu 7-August-2025AD 12 Safar 1447AH

وہ کون تھے جو یزیدی لشکر سے نکل کرحسینی لشکر میں شامل ہوۓ؟

Who were those who left the Yazidi army and joined the Hussaini army?، وہ کون تھے جو یزیدی لشکر سے نکل کرحسینی لشکر میں شامل ہوۓ؟

واقعہ کربلا: یزیدی لشکر سے حسینی لشکر میں شامل ہونے والوں کی کہانی

تعارف

واقعہ کربلا، جو 10 محرم 61 ہجری (10 اکتوبر 680 عیسوی) کو پیش آیا، اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور غمگین واقعہ ہے۔ اس دن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، امام حسین رضی اللہ عنہ، اور ان کے وفادار ساتھیوں نے یزید بن معاویہ کی فوج کے خلاف حق و سچائی کے لیے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ یہ واقعہ نہ صرف شیعہ بلکہ سنی مسلمانوں کے لیے بھی ایک عظیم قربانی کی علامت ہے، جو ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک لازوال مثال ہے۔ اس واقعے نے اسلامی تاریخ کو ایک نیا رخ دیا اور شیعہ شناخت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، جیسا کہ مورخ ہینز ہالم نے کہا: “680 سے پہلے شیعیت میں کوئی مذہبی پہلو نہیں تھا۔ تیسرے امام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے شیعیت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے کائنات کو جنم دیا۔” (ویکیپیڈیا: کربلا کی جنگ)

حضرت حر بن یزید رضی اللہ عنہ

حضرت حر بن یزید التمیمی رضی اللہ عنہ یزید کی فوج کے ایک اہم کمانڈر تھے۔ انہیں کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے ایک ہزار فوجیوں کے ساتھ امام حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب وہ امام حسین سے ملے، تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ کوفہ کے لوگوں کی دعوت پر آئے ہیں جنہوں نے انہیں اپنا رہنما بنانے کی درخواست کی تھی۔ حر نے ان خطوط سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں عبید اللہ بن زیاد کے پاس جانا ہوگا، جسے امام حسین نے مسترد کر دیا۔ (ویکیپیڈیا: کربلا کی جنگ)

امام حسین کی تقریر اور ان کی عظمت نے حر کے دل کو چھو لیا۔ عاشورہ کے دن یا اس سے پہلے کی رات، انہوں نے اپنی فوج کو چھوڑ کر امام حسین کے لشکر میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے امام سے معافی مانگی اور ان کے ساتھ مل کر جنگ کی، جہاں وہ شہید ہوئے۔ جب وہ شہید ہوئے، تو امام حسین نے فرمایا: “حر، جیسا کہ تیری ماں نے تیرا نام حر (آزاد انسان) رکھا، تو اس دنیا اور آخرت میں حر ہے۔” (ویکیپیڈیا: امام حسینؑ کی فوج میں ہلاکتوں کی فہرست)۔ حضرت حر کی یہ تبدیلی ایمان کی طاقت اور حق کی طرف رجوع کرنے کی ایک روشن مثال ہے۔

مزید پڑھیں:  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حکمرانی: فتوحات اور فلاحی ریاست کی بنیاد

یزید کی فوج سے حسینی لشکر میں شامل ہونے والے دیگر افراد

حضرت حر کے علاوہ، کچھ دیگر افراد بھی یزید کی فوج سے نکل کر امام حسین کے لشکر میں شامل ہوئے۔ شیعہ روایات کے مطابق، کل 32 افراد نے عاشورہ کی رات یا دن میں یزید کی فوج چھوڑ کر امام حسین کا ساتھ دیا۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں

  • سعید بن الحارث اور ابو الحتوف: یہ دو بھائی تھے جو عمر بن سعد کی فوج میں شامل تھے۔ انہوں نے عاشورہ کے دن یا رات کو امام حسین کے لشکر میں شمولیت اختیار کی اور شہید ہوئے۔
  • جوین بن مالک: بنو تمیم سے تعلق رکھنے والے، انہوں نے یزید کی فوج چھوڑ کر امام حسین کا ساتھ دیا۔
  • عمر بن صبیقہ الضبعی: یہ کوفہ سے عمر بن سعد کے ساتھ آئے، لیکن بعد میں امام حسین کے ساتھ شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔
  • ہلاس بن عمر الرسبی اور نعمان بن عمر الرسبی: یہ دو بھائی عاشورہ کی رات کو امام حسین کے لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔
  • حارث بن عمر القيس الکندی: یہ عاشورہ کے دن صبح کو یزید کی فوج سے نکل کر امام حسین کے ساتھ شامل ہوئے۔
  • مسعود بن حجاج التمیمی: یہ بھی عمر بن سعد کی فوج سے نکل کر امام حسین کے ساتھ شہید ہوئے، اور ان کے بیٹے عبد الرحمن بھی شہید ہوئے۔ (حوزہ نیوز)

تاہم، سنی روایات میں عام طور پر صرف حضرت حر کا ذکر زیادہ نمایاں ہے، اور دیگر افراد کے بارے میں تفصیلی معلومات کم ملتی ہیں۔ کچھ ذرائع میں دیگر نام بھی ملتے ہیں، جیسے کہ نعیم بن العجلا الانصاری، عمران بن کعب الاشجعی، حنظلہ بن عمر الشیبانی، قاسط بن زہیر التغلبی، کردوس بن زہیر التغلبی، کنانہ بن عتیق التغلبی، ضرغامہ بن مالک التغلبی، اور غامر بن مسلم العبدی۔

مزید پڑھیں:  رجب بٹ: اسلامی نقطہ نظر سے یزید کے آباؤ اجداد پر لعنت کرنے کا شرعی حکم
تفصیلاتنام
یزید کی فوج کے کمانڈر، عاشورہ کے دن یا رات کو حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔حضرت حر بن یزید الریاحی
حر کے بیٹے، یزید کی فوج سے نکل کر حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔علی بن حر الریاحی
عمر بن سعد کی فوج سے عاشورہ کے دن یا رات کو حسینی لشکر میں شامل ہوئے۔سعید بن الحارث
سعید بن الحارث کا بھائی، حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔ابو الحتوف
بنو تمیم سے، یزید کی فوج چھوڑ کر حسینی لشکر میں شامل ہوئے۔جوین بن مالک
کوفہ سے عمر بن سعد کے ساتھ آئے، حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔عمر بن صبیقہ الضبعی
عاشورہ کی رات حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔ہلاس بن عمر الرسبی
ہلاس کا بھائی، عاشورہ کی رات حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔نعمان بن عمر الرسبی
عاشورہ کے دن صبح حسینی لشکر میں شامل ہوئے اور شہید ہوئے۔حارث بن عمر القيس الکندی
عمر بن سعد کی فوج سے نکل کر حسینی لشکر میں شامل ہوئے، ان کا بیٹا بھی شہید ہوا۔مسعود بن حجاج التمیمی

اختتام

واقعہ کربلا ہمیں سچائی، انصاف، اور حق کے لیے کھڑے ہونے کی اہمیت سکھاتا ہے۔ حضرت حر بن یزید اور دیگر افراد کی مثال سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ حق کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ یہ واقعہ ہر مسلمان کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ ظلم کے سامنے سر جھکانے کے بجائے حق کے لیے لڑنا اور شہادت کو قبول کرنا افضل ہے۔

مزید پڑھیں:  حج کرنے کا مکمل طریقہ: قرآن و حدیث کی روشنی میں

FAQs: Defectors from Yazid’s Army to Imam Hussain’s Army at Karbala

Who was Hurr ibn Yazid, and why did he join Imam Hussain’s army?

Hurr ibn Yazid al-Riyahi, a commander in Yazid’s army, initially blocked Imam Hussain’s path to Kufa. Moved by the Imam’s righteousness, he defected on the day of Ashura or the night before, seeking forgiveness. His decision reflects the triumph of truth over allegiance. Both Barelvi and Deobandi scholars honor Hurr’s choice as a symbol of repentance and courage, emphasizing his sacrifice. He was martyred fighting for Imam Hussain, as noted in Wikipedia: Battle of Karbala.

How many individuals left Yazid’s army to join Imam Hussain?

Shi’a sources, like al-islam.org, suggest around 32 individuals defected from Yazid’s army to join Imam Hussain, particularly on the night or day of Ashura. Sunni narratives, including Barelvi and Deobandi perspectives, primarily highlight Hurr ibn Yazid, with less emphasis on others. Names like Sa’id ibn al-Harith and Abu al-Hatoof are mentioned in Shi’a accounts but less in Sunni records, such as Hawzah News. Exact numbers vary due to differing historical accounts.

What motivated soldiers to abandon Yazid’s army for Imam Hussain?

Soldiers like Hurr were inspired by Imam Hussain’s unwavering commitment to justice and refusal to pledge allegiance to Yazid’s unjust rule. His sermons and moral stance stirred their conscience, leading to their defection. Barelvi teachings emphasize the spiritual pull of the Ahl al-Bayt, while Deobandi scholars focus on the ethical lesson of choosing truth. Historical sources, like Wikipedia: List of casualties in Husayn’s army, note their repentance and desire to uphold righteousness as key motivators.

Who were Sa’id ibn al-Harith and Abu al-Hatoof?

Sa’id ibn al-Harith and Abu al-Hatoof were brothers in Umar ibn Sa’d’s army who defected to Imam Hussain’s side during the Battle of Karbala, as per al-islam.org. Moved by the Imam’s call for justice, they fought and were martyred. Shi’a sources highlight their sacrifice, while Sunni accounts, including Barelvi and Deobandi narratives, rarely mention them, focusing on Hurr. Their story underscores the power of truth, even in the face of overwhelming odds.

Did Hurr’s son also join Imam Hussain’s army?

Yes, Ali ibn Hurr al-Riyahi, Hurr’s son, is mentioned in some Shi’a sources, like Masood Akram Blog, as having joined his father in defecting to Imam Hussain’s army. He fought alongside the Imam and was martyred. While Barelvi and Deobandi traditions primarily focus on Hurr’s sacrifice, they acknowledge the broader lesson of family loyalty to truth. This detail is less emphasized in Sunni sources, with Wikipedia: Battle of Karbala providing minimal reference to Ali’s involvement.

What does Hurr’s defection teach Muslims today?

Hurr’s shift from Yazid’s army to Imam Hussain’s symbolizes repentance and the courage to choose truth over power. Barelvi teachings highlight his spiritual awakening, while Deobandi perspectives stress moral accountability, as reflected in Hawzah News. His story, documented in Wikipedia: Battle of Karbala, inspires Muslims to prioritize justice and rectify mistakes, even at great personal cost. It underscores the timeless lesson of standing against oppression, resonating across both Sunni and Shi’a traditions.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *