اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Thu 7-August-2025AD 12 Safar 1447AH

پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ کیا ہے؟

شملہ معاہدہ: ایک جامع جائزہ

شملہ معاہدہ، جسے بعض اوقات سملہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان 2 جولائی 1972 کو شملہ، ہماچل پردیش، بھارت میں دستخط کیا گیا ایک تاریخی امن معاہدہ ہے۔ اس معاہدے پر بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد عمل میں آیا، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک کے درمیان تنازعات اور تصادم کو ختم کرنا، تعلقات کو معمول پر لانا، اور مستقبل کے تعلقات کے لیے اصول وضع کرنا تھا۔

تاریخی پس منظر

1971 کی پاک بھارت جنگ بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ سے شروع ہوئی، جہاں بھارت نے مکتی باہنی کی حمایت کی جو پاکستانی فوج کے خلاف لڑ رہی تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کی فوج نے 16 دسمبر 1971 کو ہتھیار ڈال دیے، اور مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک، بنگلہ دیش، بن گیا۔ اس جنگ کے بعد، دونوں ممالک کو کئی مسائل حل کرنے کی ضرورت تھی، جن میں جنگی قیدیوں کی واپسی، قبضہ شدہ علاقوں کی واپسی، اور مستقبل کے تعلقات کے لیے ایک ڈھانچہ قائم کرنا شامل تھا۔ شملہ معاہدہ ان مقاصد کے حصول کے لیے بنایا گیا تھا۔ مذاکرات شملہ کے خوبصورت شہر میں ہوئے، جہاں دونوں رہنماؤں نے کئی دنوں تک بات چیت کی۔

معاہدے کی تیاری اور دستخط

شملہ معاہدہ 28 جون 1972 کو تیار کیا گیا اور 2 جولائی 1972 کو دستخط کیا گیا۔ یہ معاہدہ بارنس کورٹ (اب راج بھون) شملہ میں دستخط کیا گیا۔ اسے 7 اگست 1972 کو سیل کیا گیا اور پاکستان نے 15 جولائی 1972 کو، جبکہ بھارت نے 3 اگست 1972 کو اس کی توثیق کی۔ یہ معاہدہ 4 اگست 1972 سے نافذ العمل ہوا۔

مزید پڑھیں:  امریکی بی-2 بمبار کے ذریعے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ

معاہدے کے اہم نکات

شملہ معاہدہ کئی اہم نکات پر مشتمل ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے:

تفصیلاتنکات
دونوں ممالک نے اپنے اختلافات کو پرامن طریقے سے اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا، بغیر کسی یکطرفہ تبدیلی کے۔دو طرفہ مذاکرات
معاہدے میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی پابندی، ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت، خودمختاری، سیاسی آزادی، اور اندرونی امور میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا۔امن اور تعاون
جموں و کشمیر میں 17 دسمبر 1971 کے جنگ بندی کے بعد لائن آف کنٹرول کی تعریف کی گئی، اور دونوں فریقوں نے اسے تبدیل نہ کرنے اور اس کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے کا عہد کیا۔لائن آف کنٹرول (LOC)
دونوں ممالک نے اپنی فوجیں بین الاقوامی سرحد کے اپنے اپنے اطراف واپس بلانے پر اتفاق کیا، جو معاہدے کے نفاذ کے 30 دنوں کے اندر مکمل ہونا تھا۔فوجوں کی واپسی
مواصلات (ڈاک، ٹیلی گراف، سمندری، زمینی، اور فضائی رابطوں) کو بحال کرنے اور دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سفری سہولیات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔مواصلات کی بحالی
سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں تبادلے کو فروغ دینے کے لیے وفود کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا۔ثقافتی تبادلے
دونوں ممالک کے سربراہان نے مستقبل میں ملاقات کرنے اور جنگی قیدیوں کی واپسی، جموں و کشمیر کے حتمی تصفیے، اور سفارتی تعلقات کی بحالی جیسے مسائل پر بات چیت کرنے پر اتفاق کیا۔مستقبل کی بات چیت

علاقائی تبادلہ

معاہدے کے تحت، بھارت نے جنگ کے دوران قبضہ کیے گئے 13,000 مربع کلومیٹر سے زائد علاقے کو واپس کیا، جبکہ پاکستان نے بھی اپنے قبضے والے علاقوں کو واپس کیا۔ تاہم، بھارت نے کچھ اسٹریٹجک علاقوں کو برقرار رکھا، جن میں ترتک، دھوتھنگ، ٹیاکشی، اور چلونکا شامل ہیں، جو تقریباً 883 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہیں۔ پاکستان نے چمب شہر کو برقرار رکھا۔

مزید پڑھیں:  بحیرہ احمر میں حوثیوں کا بحری جہاز پر حملہ، ایٹرنٹی سی کو سمندر میں غرق کرنے کی ویڈیو جاری

معاہدے کی اہمیت

شملہ معاہدہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس نے درج ذیل طریقوں سے اثر ڈالا:

  • دو طرفہ مذاکرات کی بنیاد: اس نے تنازعات کو دو طرفہ طور پر حل کرنے پر زور دیا، جس سے تیسرے فریق کی مداخلت کی گنجائش کم ہوئی۔
  • جنگی قیدیوں کی واپسی: اس معاہدے نے 90,000 سے زائد پاکستانی جنگی قیدیوں کی واپسی کو ممکن بنایا۔
  • لائن آف کنٹرول: LOC کی تعریف نے جموں و کشمیر میں ایک واضح سرحد قائم کی، جو دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا ایک اہم نقطہ ہے۔
  • علاقائی استحکام: جنگ کے بعد علاقائی استحکام کو فروغ دینے میں مدد ملی۔

حالیہ پیش رفت

اپریل 2025 میں، پاہلگام میں ایک دہشت گرد حملے کے بعد، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے، بھارت نے 1960 کے انڈس واٹر ٹریٹی کو معطل کر دیا۔ اس کے جواب میں، پاکستان نے شملہ معاہدے سمیت تمام دو طرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ اس معطلی سے لائن آف کنٹرول پر تناؤ بڑھ سکتا ہے، کیونکہ دونوں فریق LOC کی پوزیشنز کو تبدیل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جس سے فوجی تصادم کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے واہگہ بارڈر بند کر دیا، فضائی حدود کو محدود کیا، اور سفارتی تعلقات کو کم کر دیا۔

تنازعات اور تشریحات

شملہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان کئی تنازعات کا موضوع رہا ہے۔ بھارت اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے بالاتر سمجھتا ہے، جبکہ پاکستان کا خیال ہے کہ یہ قراردادوں کی توثیق کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت کے 1984 میں سیاچن گلیشیئر پر قبضے اور 1999 کی کارگل جنگ کو پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے (2019) کو بھی پاکستان نے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھیں:  نارتھروپ بی-2 اسپرٹ اسٹیلتھ بمبار: دنیا کا سب سے جدید سٹیلتھ بمبار

نتیجہ

شملہ معاہدہ جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس نے امن اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بنیاد رکھی۔ تاہم، اپریل 2025 میں اس کی معطلی نے علاقے میں امن کی نازک صورتحال کو اجاگر کیا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف تاریخی اہمیت رکھتا ہے بلکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے لیے بھی ایک اہم حوالہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *