اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ

Thu 14-August-2025AD 19 Safar 1447AH

حجر اسود قیامت کے قریب چوری ہو جائے گا؟

حجر اسود کا چوری ہونا: قیامت کی ایک بڑی نشانی

تعارف

حجر اسود، جو خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب ایک مقدس پتھر ہے، اس کا چوری ہونا قیامت کی ایک اہم نشانی ہے۔ یہ پتھر، جو جنت سے آیا تھا، اسلامی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ 317 ہجری میں قرامطہ فرقے کے سردار ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور حجر اسود کو چوری کر کے اپنے شہر ہجر لے گیا۔ یہ واقعہ 22 سال تک جاری رہا، جب تک کہ حجر اسود کو واپس لا کر دوبارہ خانہ کعبہ میں نصب نہیں کیا گیا۔ یہ واقعہ، جو احادیث میں قیامت کی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کا اختتام قریب ہے اور ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہیے۔

حجر اسود کی اہمیت

حجر اسود ایک مقدس پتھر ہے جو خانہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ یہ پتھر جنت سے آیا تھا اور اسے حضرت آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ میں نصب کیا تھا۔ بعد میں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے اسے دوبارہ نصب کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حجر اسود جنت کے یاقوتوں میں سے ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ اس کی روشنی کو ختم نہ کرتا، تو یہ مشرق سے مغرب تک روشن کر دیتا (جامع ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر 877)۔ ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حجر اسود جنت سے آیا تو یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے یہ سیاہ ہو گیا (جامع ترمذی، کتاب الحج، حدیث نمبر 877)۔ یہ پتھر نہ صرف مقدس ہے بلکہ اسے چومنا یا اس کی طرف اشارہ کرنا حجاج کے لیے سنت ہے۔

مزید پڑھیں:  یاجوج ماجوج کہاں رہتے ہیں؟

تاریخی واقعہ: قرامطہ کا حملہ

317 ہجری میں، قرامطہ فرقے نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا۔ یہ فرقہ اپنے غلط عقائد اور شرعی احکام کے خلاف تعلیمات کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ ان کا سردار، ابو طاہر سلیمان بن الحسن، نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا، اس کے دروازے کو توڑا، اور اس کی چادر کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس حملے میں تقریباً 30,000 افراد شہید ہوئے، جن میں 1,700 حاجی اور 700 طواف کرنے والے شامل تھے۔ اس قتل عام کی شدت اتنی تھی کہ زمزم کے کنویں میں لاشوں کا ڈھیر لگ گیا۔ قرامطہ نے حجر اسود کو چوری کیا اور اسے اپنے شہر ہجر لے گئے، جہاں یہ 22 سال تک رہا۔ انہوں نے خانہ کعبہ کی چادر اور اس کے سنہری نالے کو بھی لوٹنے کی کوشش کی، اور ان کا مقصد اپنے شہر ہجر میں حج کا اہتمام کرنا تھا، جیسا کہ ماضی میں ابرہہ نے یمن میں کرنے کی کوشش کی تھی (سورہ الفیل، 105:1-5)۔

حجر اسود کی واپسی

قرامطہ نے حجر اسود کو واپس کرنے سے انکار کیا، حتیٰ کہ انہیں 50,000 دینار کی پیشکش بھی کی گئی۔ آخر کار، فاطمیوں کے دباؤ پر، علماء نے فیصلہ کیا کہ تمام پتھروں کو آگ میں ڈالا جائے، کیونکہ حجر اسود، جو جنت سے آیا تھا، آگ سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس طرح، 339 ہجری میں، حجر اسود کی شناخت ہوئی اور اسے دوبارہ خانہ کعبہ میں نصب کیا گیا۔ اس کی واپسی کے وقت، ایک کمزور اونٹ اسے لے کر آیا، جبکہ چوری کے وقت یہ اتنا بھاری تھا کہ کئی اونٹ اس کے بوجھ سے مر گئے۔ یہ معجزہ حجر اسود کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کیا ہے؟

قیامت کی نشانی

حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک حجر اسود اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔ یہ واقعہ، جو 317 ہجری میں ہوا، علماء نے قیامت کی نشانیوں میں شامل کیا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور ہمیں آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔

نتیجہ

حجر اسود کا چوری ہونا قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے، جو ہمیں اللہ کی قدرت اور دنیا کی فانی طبیعت کی یاد دلاتی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور اللہ سے پناہ مانگنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خانہ کعبہ اور حجر اسود کی زیارت نصیب فرمائے اور قیامت کی آزمایشوں سے محفوظ رکھے۔

حجر اسود کے چوری ہونے سے متعلق اہم معلومات

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *